جمعرات,  03 جولائی 2025ء
چترال:کھوت ویلی میں مویشی “منہ کھر وبا” کی زد میں

تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

صوبہ خیبرپختونخوا کے چترال کی وادی کھوت، جو ضلع اپر چترال کے سرسبز اور پرفضا علاقوں میں شمار ہوتی ہے، نہ صرف اپنے قدرتی حسن، بلند و بالا پہاڑوں اور یخ بستہ چشموں کے لیے مشہور ہے بلکہ یہاں کی معیشت کا بڑا انحصار زرعی اور مویشی پروری کے روایتی نظام پر ہے۔ ان علاقوں میں بسنے والے زیادہ تر لوگ اپنی روزی روٹی کے لیے گائے، بیل، بکریاں، یاک اور بھیڑوں کی افزائش پر انحصار کرتے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں اس پسماندہ علاقے کو ایک سنگین خطرے نے گھیر لیا ہے وہ ہے مویشیوں میں مہلک متعدی بیماری “منہ کھر” (Foot-and-Mouth Disease) کی وبا۔

چترال میں مویشیوں کی بیماریاں کوئی نئی بات نہیں، بلکہ صدیوں سے یہ علاقے سخت سردیوں، غذائی قلت اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث مویشی پروری میں مشکلات کا شکار رہے ہیں۔ قدیم وقتوں میں مقامی عمائدین دیسی جڑی بوٹیوں اور روایتی طریقہ علاج سے ان بیماریوں پر قابو پاتے تھے۔ لیکن جدید دور میں جہاں جانوروں کی ویکسینیشن، معیاری خوراک اور طبی سہولیات لازمی ہو گئی ہیں، وہیں چترال جیسے دور افتادہ علاقوں میں حکومتی اداروں کی غفلت نے صورت حال کو سنگین بنا دیا ہے۔

کھوت ویلی اور اس کے گرد و نواح علاقوں اور پہاڑی چراگاہوں میں “منہ کھر” کی حالیہ وبا نے درجنوں جانوروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سب سے زیادہ پوتیان، اوجو، شاو لشٹ اور پسام کے پہاڑی چراگاہ میں چرنے والے مویشی اس وبا کی زد میں ہیں۔ اس بیماری میں جانور کے منہ، زبان اور پاؤں پر زخم نمودار ہوتے ہیں، وہ خوراک چھوڑ دیتا ہے، کمزور ہو جاتا ہے اور بالآخر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ مقامی اطلاعات کے مطابق کئی قیمتی مویشی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ باقی جانوروں میں بھی علامات تیزی سے ظاہر ہو رہی ہیں۔

کھوت ویلی کے باسیوں کے لیے ایک ایک مویشی سونا اگلتی زمین کے مترادف ہوتا ہے۔ دودھ، گوشت، کھاد اور فصلوں کی جوتائی، سب کچھ انہی مویشیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ جب ایک جانور بیماری کا شکار ہو کر مر جاتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے ایک خاندان کی معیشت کا زمین بوس ہونا۔ حالیہ وبا سے متاثرہ کسان شدید ذہنی اذیت، مالی خسارے اور خوراک کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔

یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ محکمہ لائیو اسٹاک، جس کا بنیادی فرض جانوروں کی صحت کی نگہداشت ہے، اس بحرانی کیفیت میں تقریباً غائب ہے۔ مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ نہ تو ویکسینیشن کی مہم چلائی گئی، نہ کوئی ویٹرنری عملہ پہنچا اور نہ ہی ہنگامی بنیادوں پر متاثرہ جانوروں کا علاج کیا گیا۔ جب کہ یہ بیماری انتہائی متعدی ہے اور فوری اقدامات نہ کیے جائیں تو یہ پوری وادی کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر کھوت ویلی اور گرد و نواح میں منہ کھر کی ویکسین فراہم کی جائے اور ہر جانور کو ٹیکہ لگایا جائے۔
محکمہ لائیو اسٹاک کے تجربہ کار ڈاکٹروں پر مشتمل ٹیمیں فوری طور پر علاقے میں پہنچیں اور متاثرہ جانوروں کا معائنہ اور علاج کریں۔

مویشی پال افراد کو بیماری کی علامات، احتیاطی تدابیر اور قرنطینہ کے اصولوں سے آگاہ کیا جائے۔

کھوت ویلی جیسے دور دراز علاقوں میں مستقل ویٹرنری سینٹرز قائم کیے جائیں تاکہ مستقبل میں ایسی وباؤں سے بچا جا سکے۔

کھوت ویلی میں مویشیوں کی بیماری صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی، معاشی اور انسانی بحران ہے۔ جب ایک دیہی معاشرہ اپنی بنیادی زرعی قوت سے محروم ہوتا ہے، تو غربت، ہجرت، بھوک اور سماجی انحطاط جنم لیتا ہے۔ حکومت، مقامی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کو فوری طور پر ایک جامع، مربوط اور عملی حکمتِ عملی اپنانا ہو گی تاکہ نہ صرف موجودہ وبا پر قابو پایا جا سکے بلکہ مستقبل کے خطرات سے بھی نمٹا جا سکے۔

مزید خبریں