ڈچ ہیگ (روشن پاکستان نیوز) – سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو سربراہی اجلاس کے دوران میڈیا پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ ایران پر حالیہ امریکی حملوں کی “شاندار کامیابی” کو جان بوجھ کر کم تر دکھایا جا رہا ہے۔
ٹرمپ نے یورپی اور امریکی میڈیا، خصوصاً سی این این اور نیو یارک ٹائمز کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ ادارے “جعلی خبریں” پھیلا کر امریکی عوام کو گمراہ کر رہے ہیں اور عسکری کامیابیوں کو “معمولی” ظاہر کر کے قوم کے حوصلے پست کر رہے ہیں۔
سابق صدر نے زور دے کر کہا:
“میری قیادت میں کیے گئے حملے اتنے مؤثر تھے کہ انہیں ‘ہیروشیما اور ناگاساکی’ جیسے لمحات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن میڈیا نے اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی۔”
“آپریشن مڈنائٹ ہیمر” – پسِ منظر
یہ تنقید اس وقت سامنے آئی جب 22 جون کو امریکہ نے ایران کے تین اہم جوہری مراکز — فورڈو، نطنز، اور اصفہان — پر ایک بڑے پیمانے پر فضائی اور بحری حملہ کیا۔ اس مہم کو امریکی دفاعی اداروں نے “آپریشن مڈنائٹ ہیمر” کا نام دیا، جس کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو پیچھے دھکیلنا تھا۔
انٹیلیجنس رپورٹس پر سوال
ٹرمپ نے اس بات پر بھی غصے کا اظہار کیا کہ کچھ خفیہ رپورٹس میڈیا تک کیسے پہنچیں۔ انہوں نے “سیاست زدہ لیکرز” پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان افراد کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا چاہیے۔
حملوں کے اثرات کا جائزہ
اگرچہ امریکی انتظامیہ نے کارروائی کو کامیاب قرار دیا ہے، مگر انٹیلیجنس رپورٹس کے مطابق ایران نے کئی مقامات سے حساس مواد پہلے ہی منتقل کر لیا تھا، جس کی وجہ سے نقصان کا مکمل اندازہ لگانے میں وقت لگے گا۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان حملوں کے نتیجے میں ایران کے جوہری پروگرام کو “کئی سالوں” تک پیچھے دھکیلا جا سکتا ہے، جو امریکی اسٹریٹجک حکمتِ عملی کے لیے ایک بڑی جیت ہوگی۔
مزید پڑھیں: ہم حکومت کی تبدیلی کے خواہاں نہیں، ایٹمی ہتھیار ایران کی ترجیح نہیں: صدر ٹرمپ
نیٹو میں تشویش
ٹرمپ کی جانب سے سخت بیانات کے باوجود، کچھ نیٹو رہنما اس بات پر تشویش ظاہر کر رہے ہیں کہ ایسے حساس مواقع پر میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنانا بین الاقوامی اتحاد کو متاثر کر سکتا ہے۔ ایک یورپی سفارتکار نے کہا:
“اس وقت ہمیں یکجہتی اور حکمت کی ضرورت ہے، نہ کہ داخلی تناؤ اور الزام تراشی کی۔”
امن کا پیغام یا انتخابی بیانیہ؟
ٹرمپ نے کہا کہ ان کارروائیوں نے نہ صرف جنگ کا خاتمہ کیا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں نئے امن معاہدوں کی راہ بھی ہموار کی ہے۔ ان کے بقول، “یہ صرف ایک حملہ نہیں بلکہ خطے میں استحکام کی جانب ایک بڑی پیش رفت ہے۔”
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ بیانات نہ صرف بین الاقوامی پالیسی کا حصہ ہیں بلکہ 2024 کے امریکی انتخابات کی مہم کا کلیدی بیانیہ بھی بن سکتے ہیں۔