اتوار,  22 جون 2025ء
“منظوم میزائل اور غزلیاتی بمبار: اک عالمی ادبی جھڑپ”

تحریر: وقار نسیم وامق

ایران و اسرائیل کے مابین کشیدگی اس نہج پر پہنچ چکی تھی کہ اقوامِ متحدہ نے مشورہ دیا:
“اب جنگ نہیں، صرف مشاعرہ ہوگا!”
ایران نے پہلا وار کیا:
“مرغِ سحر بانگ دے، امن کی صدا بنے!”
اسرائیل نے چائے کے کپ سے قلم نکالا:
“ہم تلخ ہیں، تم شیریں سہی، مل بیٹھ کے نظم لکھ لیتے ہیں!”.
مشاعرہ مورچوں میں بدل گیا۔ شاعر توپچی بنے، اور مائیکروفون سے حملے کیے گئے۔ شکست صرف اس کو ہوتی جس کا قافیہ بہک جاتا۔ جب اشعار کی گولہ باری تھم گئی تو امن کی میز سجائی گئی۔ میز پر نہ نقشے تھے نہ میزائل، صرف دیوانِ غالب، خسرو کی پہیلیاں اور ناصر کاظمی کی اداس نظمیں۔
امریکہ نے بھی اس عالمی مشاعرہ میں شمولیت اختیار کی لیکن اپنی مخصوص “اسٹریٹیجک شاعری” کے ساتھ۔ پاکستانی وفد کی قیادت فیض احمد فیض نے کی جو کہ مہمانِ خاص کے طور پر بلائے گئے تھے۔ انہوں نے ابتدائیہ میں کہا:
“بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے”
روس نے ترجمہ کروایا، تالیاں بجیں اور اعلان ہوا کہ “اب ہماری سرد جنگ صرف ‘سرد نظموں’ تک محدود رہے گی۔”
چین کے شاعر نے جدید ہائیکو اور ملی نغموں کے امتزاج سے ایک نظم پیش کی:
“چائے میں ہے چینی
سلسلہ امن کا ہو
اشعار میں نرمی”
ترکی نے رومی کو اپنا نمائندہ بنایا۔ جب رومی نے درویشانہ چکر لگاتے ہوئے کہا:
“بیرون ز تو نیست، ہر چہ بینی
در خود نگر، آنِ تست و بینی”
تو پوری دنیا یک زبان ہو گئی: “امن کا مرکز دل ہے”.
علامہ اقبال نے کلام پیش کرتے ہوئے فرمایا:
“نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی”
راحت اندوری نے اپنے آتش فشانی انداز سے سامعین کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا، پکار اٹھے:
“سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا
کچھ پتہ تو کرو چُناؤ ہے کیا
خوف بکِھرا ہے دونوں سمتوں میں
تیسری سِمت کا دباؤ ہے کیا”
اس موقع پر جون ایلیا یوں گویا ہوئے،
“میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا، اور ملال بھی نہیں!”
اس پر اسرائیلی وزیرِ شاعری نے سَر دھن کر کہا:
“اب اگر حملہ بھی ہوا تو صرف نثری نظموں میں ہوگا”۔
اس موقع پر مشاعرہ کے سٹیج پر پروین شاکر آئیں۔ان کی آواز میں محبت کی شیرینی اور لہجے میں لفظوں کا جادو تھا،
“حرف تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے
باب اک اور محبت کا کھلا چاہتا ہے”
یہ سنتے ہی چین اور ترکی کے وفود نے کہا، “یہی وہ خوشبو ہے جس سے عالمی ہوائیں معطر ہونی چاہئیں۔”
حبیب جالب نے اس موقع پر اپنی مشہورِ زمانہ نظم “دستور” پیش کی،
“ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا”
ایرانی سفیر نے وعدہ کیا:
“اگر کبھی نظم میں وزن نہ ملا، تو ہم اردو سے لفظ ادھار لیں گے!”۔
احمد فراز نے یہ شعر پڑھا:
“رنجش ہی سہی، دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ”
اسرائیل اس شعر پر مکرر مکرر پکار اٹھا۔
پوری دنیا کے شعرا نے ہاتھوں میں قلم، دلوں میں امن اور زبان پر امید کے مصرعے لیے، عالمگیر ترانے کے ساتھ مشاعرہ اختتام کو پہنچایا:
“یہ مشاعرہ ہے امن کا
جہاں نہ بندوق، نہ سرحد
صرف لفظ، خیال اور خواب”۔
صدرِ مشاعرہ مرزا غالب نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا:
“ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے”۔
ناظمِ مشاعرہ وقار نسیم وامق نے مائیک سنبھالا اور عالمی مشاعرہ کا اختتام ان الفاظ پر کیا،
“منظوم میزائل اور غزلیاتی بمبار کے عہد میں
ہم نے کاغذ پہ انقلاب لکھا اور دنیا کو امن کا پیغام دیا”، ان کی نظامت میں مزاح، صداقت اور فکر و فن کی آمیزش تھی۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ “وامق کا قلم، امن کا بہترین ہتھیار ہے، جب جنگ کی جگہ ادب اور بارود کی جگہ شعر ہوں تو امن خود بخود قائم رہتا ہے!”۔
اس مشاعرے کے بعد دنیا میں ایک نیا نظم پیدا ہوا، سفارتی نظام کو “ادبی ڈھانچے” میں ڈھالا گیا۔ ہر ملک کی وزارتِ خارجہ کو “وزارتِ قافیہ و بحر” کہا گیا جبکہ ہر ملک نے “وزارتِ دفاع” کو “وزارتِ لوح و قلم” میں بدل دیا۔ تمام ممالک کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے پاسپورٹ پر اب لکھا ہوتا ہے، “حامل ہذا کو اشعار کی سرزمین پر داخلے کی اجازت ہے!”
گلیوں میں اب ٹینک نہیں، اشعار گونجتے ہیں۔
“قلم جیتا، دل جیتے، دنیا جیت گئی”۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس مشاعرہ میں موجود تھے، خوب شاعری کرتے ہیں اور اب نوبل امن ایوارڈ کے امیدوار بھی ہیں۔

مزید خبریں