جمعرات,  15 مئی 2025ء
ٹرمپ اور امن چہ معنی دارد ؟
فلم آپریشن سیندور شاندار افتتاح

کیا واقعی دنیا میں تبدیلیاں آنے والی ہیں ؟ دنیا کے سب سے بڑے جنگ پسند ملک امریکہ کے صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے اچانک ساری دنیا میں امن قائم کرنے کے بارے میں باتیں شروع کردی ہیں ۔ باک بھارت جنگ سے قبل جب اس حوالے سے میڈیا نے صدر ٹرمپ سے سوال کیا تو انکا جواب کچھ اس طرح کا تھا لڑائی نہیں ہونی چاہیے لیکن اگر لڑائی ہوتی ہے تو امریکہ کا اس سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہوگا ۔

اس وقت ذیادہ تر تجزیہ نگاروں کی یہی رائے تھی کہ ٹرمپ کی طرف سے یہ بیان بھارت کے لیے ایک قسم کی تھپکی ہے کہ اگر وہ پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو امریکہ خاموش رہے گا ۔ بھارت جس کو پاکستان کی عسکری طاقت کا اندازہ نہیں تھا اس نے بھڑوں کے سوراخ میں ہاتھ ڈالا اور اب وہ اپنا ہاتھ درد کی شدت سے جھٹکتا ہوا فریاد کر رہا ہے ۔

جنگ میں ناکامی کے بعد جب بھارت نے امریکہ سے فریاد کی تو یکایک صدر ٹرمپ کو امن یاد آگیا اور اس نے ساری دنیا میں امن کے قیام کے لیے بیانات دینے شروع کر دیے ۔ صدر ٹرمپ آج کل اس بات پر بہت خوش ہیں کہ میں نے دو ایٹمی طاقتوں کے بیچ جنگ بندی کروا کر انہیں بہت بڑی تباہی سے محفوظ کر لیا ہے ورنہ اگر ان دو ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑ جاتی تو لاکھوں لوگ ہلاک ہو سکتے تھے۔ بعض تجزیہ نگار اور اندر کی خبر رکھنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان نے خاموشی سے امریکہ اور مغرب کو یہ پیغام بھی دیا تھا کہ اس جنگ میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان پر حملہ کرنے میں بھارت کے ساتھ اسرائیل بھی ایک فریق ہے لہذا اگر بھارت نے ریڈ لائن عبور کرنے کی کوشش کی اور پاکستان کو ایٹمی حملہ کرنا پڑا تو بھارت کے ساتھ اسرائیل بھی اس کا نشانہ بنے گا اور شاید یہی دھمکی تھی کہ جس کی وجہ سے صدر ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ نے اچانک پینترا بدلا اور امن کی باتیں کرنے لگے ۔

امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے دورہ سعودی عرب میں بار بار دنیا میں امن کے قیام کی باتیں کیں اور پہلی مرتبہ غزہ میں ہونے والی اسرائیل کی کھلی دہشت گردی پر اعتراض کیا اور ساتھ ہی سعودی عرب سے درخواست کی کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے تاکہ مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام میں مدد ملے ۔انہوں نے شام پر عائد پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کیا اور شام کے عبوری سربراہ سے ملاقات بھی کی جو یقیناً ایک غیر معمولی بات ہے ۔
اسی طرح انہوں نے حیرت انگیز طور پر کہا کہ امن کے قیام کے لیے ہم ایران سے بھی بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم اگر ایران نے جوہری توانائی کے حصول کے پروگرام کو ترک نا کیا تو اس پر پابندیاں مزید سخت کر دی جائیں گی ۔

دراصل اس وقت معاشی اور عسکری طور پر چین جس تیزی سے ترقی کر رہا ہے اس نے امریکہ اور یورپ پر خوف طاری کر دیا ہے اس لیے امریکہ امن کی باتیں کرکے اپنے امیج کو دنیا میں بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہوگیا ہے کیونکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی جنگ و جدل کا بازار گرم ہوتا ہے اس میں کسی نہ کسی طریقے سے امریکہ کا ہاتھ ہوتا ہے جبکہ چین خاموشی کے ساتھ دنیا میں اپنے دوستوں میں اضافہ کرتا جا رہا ہے جس کے خوف سے امریکہ جیسے دہشت گرد ملک نے بھی امن کی باتیں شروع کر دی ہیں ۔

اگر امریکہ واقعی دنیا میں امن کا خواہاں ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے پٹھو اسرائیل کو نکیل ڈالنی پڑے گی اس کے بعد ہی باقی دنیا امرکہ کے اس دعوے پر اعتبار کر سکے گی کہ واقعی امریکہ دنیا میں امن چاہتا ہے ۔

لگتا یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کی اس مختصر سی جنگ کی وجہ سے عالمی منظر نامے میں بڑی تبدیلیاں آنے والی ہیں اور عالمی طاقتیں اب نئی صف بندی کرنے کی تگ و دو میں لگ گئی ہیں ۔

کل تک کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چین اور پاکستان کا اتحاد اتنا بڑا کام کر سکتا ہے کہ بھارت جیسے بڑے ملک جس کو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے کو اتنی آسانی سے پچھاڑ سکتا ہے ؟ بھارتی حکمران تو اپنے عوام کو دھوکہ دینے میں مصروف ہیں کہ ہم نے پاکستان کو تباہ کر دیا ہے لیکن مغربی ممالک تو بھارت کے جاہل اور جزباتی عوام کی طرح بیوقوف نہیں ہیں کہ سچ اور جھوٹ میں فرق نا کرسکیں لہذا انہوں نے اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے ہاتھ پیر مارنے شروع کر دیے ہیں کیونکہ اب کوئی مانے یا نہ مانے چین ایک نئی سپر پاور کا روپ دھار چکا ہے ۔

تحریر: داؤد درانی

مزید خبریں