جمعرات,  24 اپریل 2025ء
پہلگام حملہ اور بھارت کے اقدامات ایک منظم حکمتِ عملی کا حصہ، محض اتفاقیہ واقعہ نہیں، ماہرین

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) :پہلگام میں پیش آنے والا واقعہ اور اس کے بعد بھارت کی جانب سے اٹھائے گئے یکطرفہ اقدامات محض اتفاقیہ نہیں بلکہ ایک منظم اور مسلسل حکمتِ عملی کا حصہ ہیں، جس کا مقصد خطے میں پاکستان کے کردار کو کمزور کرنا ہے۔ اس واقعے کا وقت، تاریخی مماثلتیں، اور اس کے فوراً بعد شروع ہونے والی مربوط میڈیا مہم اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ ایک سوچا سمجھا اقدام تھا۔ اس ارادے کی مزید عکاسی ان اقدامات سے ہوتی ہے جو بغیر کسی ثبوت یا حملہ آوروں کی شناخت کے اٹھائے گئے، جیسے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور اٹاری سرحد کی بندش۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایک سوچا سمجھا، متوازن اور پُرعزم حکمتِ عملی اپنائے ، اپنے اصولی مؤقف کا اعادہ کرے، غلط معلومات کا حقائق سے مقابلہ کرے، ایسے منظم تشدد کے پیچھے چھپے اسباب کو بے نقاب کرے، اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مؤثر رابطہ قائم کرے۔

یہ مشاہدات انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ، اسلام آباد ، کے زیرِ اہتمام منعقدہ ایک تقریب بعنوان ”پہلگام حملہ: مقاصد اور تزویراتی اثرات کا تجزیہ“ کے دوران ماہرین اور دفاعی تجزیہ کاروں کے ایک پینل نے پیش کیے۔ سیشن سے خطاب کرنے والوں میں ڈاکٹر اسماء شاکر خواجہ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز، آزاد جموں و کشمیر، شیخ ولید رسول، ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف ملٹی ٹریک ڈائیلاگ ڈیولپمنٹ اینڈ ڈپلومیٹک اسٹڈیز، ڈاکٹر نعمان ستار، وزیٹنگ فیکلٹی، ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز، قائداعظم یونیورسٹی، سید نذیر، دفاعی اور اسٹریٹجک ماہر، سینئر صحافی افتخار گیلانی، خالد رحمٰن، چیئرمین (آئی پی ایس) ، اور سفیر (ر) سید ابرار حسین، وائس چیئرمین (آئی پی ایس) ، شامل تھے۔

ڈاکٹر اسماء خواجہ نے کہا کہ یہ واقعہ ”کشمیر کے مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لیے ایک سوچا سمجھا اقدام تھا۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے واقعات اکثر بھارت میں اعلیٰ سطحی غیر ملکی دوروں کے دوران پیش آتے ہیں تاکہ عالمی توجہ کو اصل مسئلے سے ہٹایا جا سکے۔ انہوں نے وزیر اعظم مودی کی قیادت میں بڑھتے ہوئے ہائپر نیشنلزم کے کردار کو تسلیم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور خبردار کیا کہ ایسے اقدامات اسلاموفوبیا کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے علاقائی کردار کو کمزور کرنے کی وسیع تر حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔

شیخ ولید رسول نے پہلگام کی تاریخی حساسیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اجیت ڈوول ڈاکٹرائن کا ذکر کیا، جو ریاستی عناصر کو نشانہ بنانے پر زور دیتا ہے۔ انہوں نے کہا ”یہ محض ایک الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے۔ یہ ایک کثیر جہتی حکمتِ عملی ہے، جو ایک بڑے پیٹرن کا حصہ ہے، اور اسے عالمی اور علاقائی حرکیات کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔“

ڈاکٹر نعمان ستار نے اس واقعے کو ۱۱ /۹ کے بعد بھارت کے تزویراتی رویے کے فریم ورک میں دیکھتے ہوئے کہا کہ ایسے حملوں کو اکثر پاکستان کو مستقل مخالف کے طور پر پیش کرنے اور قوم پرستانہ جذبات کو ابھارنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے اثرات مہینوں تک جاری رہ سکتے ہیں، جن میں پاکستان کے علاقائی کردار کو غیر مستحکم کرنا اور تعلقات کی معمول پر واپسی کو کمزور کرنا شامل ہے۔

سید نذیر نے کہا کہ یہ واقعہ کشمیر کے سیاسی تانے بانے کو کمزور کرنے کی کوشش ہے، جس میں مسلم قیادت اور خودمختاری کے باقی ماندہ آثار کو ختم کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔ انہوں نے سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنے کے حوالے سے بھارت کے تزویراتی موقف کے خلاف خبردار کیا، جسے انہوں نے پاکستان کے قومی مفادات کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیا۔

افتخار گیلانی نے سیاحوں کو نشانہ بنانے کی غیر معمولی نوعیت پر روشنی ڈالی، جو تاریخی طور پر حتیٰ کہ شدت پسندی کے عروج کے دوران بھی ممنوع تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک آزمودہ فارمولا رہا ہے جس کے ذریعے بھارت نے پاکستان اور مسلمانوں کے نام پر معاشرے کو پولرائز کیا ہے۔ انہوں نے اسے مسلمانوں، کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف عوامی رائے کو بھڑکانے کی حکمتِ عملی کا حصہ قرار دیا، جو ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔

مقررین نےپاکستان کو ”ایک متوازن، مربوط اور پُرعزم رویہ“ اپنانے اور قابلِ تصدیق حقائق سے مقابلہ کرنے، ایسے واقعات کے پیچھے چھپی تزویراتی وجوہات کو بے نقاب کرنے، اور پاکستان کے مؤقف کو بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر پیش کرنے کے لیے دوست ممالک کو شامل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔

مزید پڑھیں: بھارت کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ، پہلگام حملے میں مردہ قرار دیئے جانیوالے میاں بیوی زندہ نکلے

اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے بھارتی بیانیے کی ساکھ پر سنجیدہ سوالات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بغیر کسی ثبوت یا حملہ آوروں کی شناخت کے، فوری اور ہم آہنگ میڈیا مہم کا آغاز اس بات کا مظہر ہے کہ یہ محض ایک ردعمل نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا اور پیشگی منصوبہ بند بیانیہ تھا، جس کا مقصد عوامی رائے اور پالیسی بیانیے کو مخصوص انداز میں تشکیل دینا تھا۔

مزید خبریں