یہ شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
آج مقابلہ ہے چودھریوں کا اور سیدوں کا کہ ان میں سے کن کی ذات افضل ہے یا کون افضل انسان ہے ؟
ویسے تو قرآن اس ذات بات/ حسب نسب/ اونچ نیچ کی بناء پر انسان کو پرکھنے کی سخت ممانعت کرتا ہے
بلکہ اسلام ہی کیا دنیا میں جتنے بھی مذاہب آئے ان کا اور انسانیت کا ایک ہی سبق رہا کہ کوئی بڑا چھوٹا نہیں/ کوئی اعلی کوئی کمتر نہیں/ لیکن جب میں قران پہ نظر ڈالوں تو اس میں ہمیں ایک واقعہ ملے گا کہ حضرت موسی نے زمین پر اپنا عصہ مارا تو بارہ چشمے پھوٹ پڑے اور 12 قبیلوں نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان لیا
تو یہ تو مثال ان لوگوں کے لیے ہو گئی جو ہر بات میں قرآن اور حدیث سے شہادت مانگتے ہیں
دوسری بات یہ کہ جب گورے یہاں ہند پر حکومت کر رہے تھے تو جب وہ افواج میں نوجوانوں کی بھرتی کرتے تھے تو ان کا حسب نسب ،ان کا علاقہ! ان کی نسل سے، پہلے متعارف ہوتے تھے اس کے بعد انہیں افواج میں بھرتی کیا جاتا تھا
اور تیسری بات یہ ہے کہ جب ہم پرندوں کی اعلی نسل لیتے ہیں /کتوں اور گھوڑوں کو ان کی نسلیں دیکھ کر انتخاب کرتے ہیں تو پھر یہ طے ہوا کہ رشتہ داریاں بناتے ہوئے اور دوستیاں بناتے ہوئے بھی ہمیں دوسرے بندے کا حسب نسب دیکھنا چاہیے
عام معاملات زندگی میں، کہیں دفتر میں کام کرتے ہوئے ، کاروبار کرتے ہوئے اس چیز کو نظر انداز کر سکتے ہیں لیکن جس کے ساتھ آپ نے گاڑھی دوستی بنا لی وہ اعلی نسل ہونا ضروری ہے اور خاندانی بھی
میں تو کچھ اور بات کرنے چلا تھا کہ میری زندگی میں جو میرے حلقہ احباب میں چند ایک بہترین لوگ آئے ان کی ستائش کر دوں
جن میں صف اول میں میرے دوست، بھائیوں جیسے دوست ،
چوہدری محمد اسلم ایڈیشنل سیکرٹری ریٹائرڈ
کیا کہنے چوہدری صاحب آپ کے۔
آپ سے جب ملتا ہوں تو اپنا آپ بہت چھوٹا لگتا ہے کیونکہ آپ بہت قدآور شخصیت ہیں ۔
آپ کس طرح کئی سالوں سے میرے ساتھ بے غرض دوستی نبھا رہے ہیں
بلکہ میں ہی آپ کو کام بولتا ہوں اور آپ میرے کام کے لیے دوڑیں لگا دیتے ہیں
پھر خود فکر مند ہوتے ہیں پھر مجھ سے فون کر کے پوچھتے ہیں کہ میرے کام کا کیا بنا ؟
میں آپ کو سلام پیش کرتا ہوں چوہدری اسلم صاحب۔ میری بڑی خواہش ہے کہ میں اگلے جنم میں آپ سے پھر لوں
اب آتے ہیں میرے باس، پی آر او، کنٹرولر نیوز ریڈیو پاکستان، جناب چوہدری ضمیر اشرف صاحب ۔
جن کا میں دل سے مداح ہوں۔ کیا خاندانی آدمی ہیں۔
کھلے دل کے
چوہدری صاحب کتابوں کے مصنف ہیں ان کی لکھی مطالعہ پاکستان کی کتابیں کالجوں میں بڑھائی جاتی ہیں
لیکن عاجزی اور انکساری ایسی کہ جب مجھے ملیں تو مجھے ایسے لگتا ہے کہ چودری ضمیر اشرف میرے باس نہیں بلکہ میں ان کا باس ہوں
اس کے علاوہ بھی چوہدری صاحب میں بہت ساری خوبیاں ہیں جیسے کہ دل میں منافقت نہیں رکھتے۔ قطعا منافق آدمی نہیں ہیں۔
چودھری صاحب اللہ آپ کو دنیا اور آخرت کی خوشیاں عطا فرمائے
چودری محمد اسلم اور چوہدری ضمیر صاحب سے تو میرا ہر روز کا رابطہ ہے
لیکن ایک چوہدری جس سے میں کئی سال بعد ملتا ہوں لیکن وہ ہر وقت میری یادوں میں ہے اور اس چوہدری نے کئی سال پہلے بنا کسی لالچ کے، میری ڈوبی ہوئی رقم مجھے دلوائی تھی اور ان کا نام ہے چوہدری وارث، ڈائریکٹر ہیں پمز ہسپتال میں
جیو چودریوں جیو
یہ ملک/ چوہدری/ سید/ خان یہ خطاب ہیں
یہ عزت کے لیے بولے جاتے ہیں
کسی کے نام کے ساتھ خان لگا ہو اور اسے خان کہہ کر پکارا جائے تو یہ ایک عزت کی بات ہے
اور ساتھ ہی اگر آگے پیچھے دو جگہ خان لگا دیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اس کو بہت مان دیا
بہت عزت دی
جیسے خان لیاقت علی خان/ خان عبدالولی خان/
اگر میرا بس چلے تو میں انہیں
چوہدری محمد اسلم چوہدری
چوہدری ضمیر اشرف چودری
چوہدری وارث چوہدری لکھوں اور بولوں
چودری صاحب آپ لوگ بڑے عظیم لوگ ہیں اور فیصلہ یہ کرنا ہے کہ چوہدری زیادہ اعلی اور مرتبت عہدے پر فائز ہیں سماجی لحاظ سے
یا سید ؟
کیونکہ میں سید ہوں اور نجیب طرفین سید ہوں
اس فیصلے سے پہلے میں آپ کو ایک جوک سنا دوں
ایک ملک کی اور ایک راجہ کی کہیں بحث ہو گئی
راجہ کہتا ہماری ذات افضل ہے
تو ملک کہتا ہماری ذات افضل ہے
ملک کہنے لگا ہمارا مقام و مرتبہ معاشرے میں تم سے زیادہ ہے
کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ
الملک السموات والارض
ملک آسمانوں پر بھی ہیں اور ملک زمینوں پر بھی۔
راجہ یہ سن کے پریشان ہو گیا اور اس سے کہا کہ مجھے دو دن کا ٹائم دو میں قرآن پڑھ کے آتا ہوں
راجہ صاحب جب واپس آیا تو ملک سے کہنے لگا
ملک جی سنیں
اللہ تعالی فرماتے ہیں
انا للہ وانا علیہ راجعون
ہر کسی کو ایک نہ ایک دن راجہ بننا ہے