اتوار,  20 اپریل 2025ء
عمران خان کے نام کے ساتھ “رحمتہ اللہ علیہ” کا استعمال: عقیدت یا خطرناک شخصیت پرستی؟

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز)  پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر حالیہ رجحان نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، جہاں بعض پارٹی کارکنان اور مداح ان کے نام کے ساتھ “رحمتہ اللہ علیہ” لکھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عام طور پر یہ الفاظ کسی وفات یافتہ نیک شخصیت یا ولی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، لیکن ایک زندہ شخص کے لیے ایسے الفاظ کا استعمال نہ صرف دینی اور معاشرتی لحاظ سے سوالیہ نشان بن چکا ہے بلکہ اس سے ایک نئے قسم کے سیاسی کلٹ (Cult) کا تاثر بھی پیدا ہو رہا ہے۔

اس رویے نے یہ سوال کھڑا کیا ہے کہ کیا عمران خان اس درجے کے احترام کے مستحق ہیں جس میں انہیں اولیاء یا دینی شخصیات کے برابر قرار دیا جائے؟ پی ٹی آئی کارکنان کا اپنے قائد سے بے پناہ جذباتی لگاؤ اور اعتماد قابلِ فہم ہو سکتا ہے، لیکن نام کے ساتھ مذہبی القابات کا اندھا استعمال ایک ایسی حد کو چھو رہا ہے جہاں شخصیت پرستی اور غلو کا خطرہ جنم لیتا ہے۔

عمران خان کی سیاسی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو اُن کی خدمات اور خامیوں کا ایک متوازن امتزاج سامنے آتا ہے۔ بلاشبہ انہوں نے کرپشن کے خلاف بیانیہ کھڑا کیا، عام نوجوان کو سیاسی شعور دیا، اور پاکستان کے روایتی سیاسی کلچر کو چیلنج کیا۔ تاہم دوسری جانب ان کے دورِ حکومت میں گورننس، مہنگائی، اور ادارہ جاتی تصادم جیسے کئی سنگین سوالات بھی اٹھے، جنہیں نظرانداز کرنا دیانتداری نہیں ہوگی۔

ان کی ذاتی زندگی بھی تنقید کی زد میں رہی ہے، خاص طور پر شادیوں، روحانی وابستگیوں اور بعض مذہبی بیانات کے تناظر میں۔ یہ تمام پہلو ایک ہمہ گیر تجزیے کا تقاضا کرتے ہیں، جس میں نہ صرف ان کی خدمات بلکہ ان کی خامیوں کو بھی مدِنظر رکھا جائے۔

پی ٹی آئی کارکنان کا اپنے رہنما پر اندھا اعتماد سیاسی وابستگی سے بڑھ کر عقیدتی رنگ اختیار کر چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر بعض صارفین عمران خان کو “نجات دہندہ” یا “مہدی” جیسے الفاظ سے تعبیر کرتے نظر آتے ہیں، جو نہ صرف اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے بلکہ معاشرتی طور پر بھی خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔

“رحمتہ اللہ علیہ” جیسے الفاظ کا استعمال نہ صرف قبل از وقت ہے بلکہ اس سے ایک ایسا بیانیہ تشکیل پا رہا ہے جو قائد کو خطا سے پاک، معصوم اور ناقابلِ تنقید سمجھتا ہے۔ جمہوری معاشروں میں ایسے رویے افراد کی عقل پر پردہ ڈال دیتے ہیں، اور یہ طرزِ فکر کسی بھی سیاسی جماعت یا معاشرے کے لیے زوال کی علامت بن سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: عمران خان سے ملاقات کیلئے تحریری حکمنامہ جاری کرنیکی استدعا مسترد

عمران خان کے چاہنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے جذبات کو دینی اقدار اور اعتدال کے دائرے میں رکھیں۔ سیاسی لیڈرز کا احترام ضرور کریں، لیکن انہیں روحانی یا مذہبی درجہ دینا نہ صرف اسلام کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ خود عمران خان کی شخصیت کو ایک غیر حقیقی مقام پر پہنچانے کے مترادف ہے۔

کیا ہم بطور قوم اتنے مایوس ہو چکے ہیں کہ ایک سیاسی شخصیت کو مافوق الفطرت مقام دے دیں؟ یہ سوال آج ہر باشعور پاکستانی کو خود سے ضرور پوچھنا چاہیے۔

مزید خبریں