هفته,  19 اپریل 2025ء
احتجاج نہیں، عملی اقدامات کی ضرورت — غزہ کے مسئلے کا مستقل حل کیا ہو سکتا ہے؟

تحریر: پیر سید محمد علی گیلانی، سجادہ نشین دربار حضرت بری امام سرکار و مرکزی صدر قومی امن کمیٹی برائے بین المذاھب و بین المسالک ہم آہنگی پاکستان

اسلام آباد: جب بھی اسرائیل غزہ پر حملہ کرتا ہے تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسلمان سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔ احتجاجی مظاہرے کیے جاتے ہیں، نعرے لگائے جاتے ہیں، بینرز اٹھائے جاتے ہیں اور جذباتی تقاریر کی جاتی ہیں۔ تاہم پیر سید محمد علی گیلانی نے ایک اہم اور حقیقت پسندانہ موقف پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان جذباتی مظاہروں کے بجائے ہمیں عملی اور پائیدار اقدامات کی طرف قدم بڑھانا ہوگا تاکہ مسئلہ فلسطین کا حقیقی حل سامنے آسکے۔

انہوں نے کہا کہ مظاہرے وقتی جذباتی ریلیف تو فراہم کرتے ہیں، مگر ان سے کوئی مستقل تبدیلی نہیں آتی۔ دشمن ان مظاہروں کا تجزیہ کر کے ہمارے جذبات اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتا ہے، جبکہ ہم اپنی توانائیاں ضائع کرتے رہتے ہیں۔

احتجاج سے آگے، حل کی طرف بڑھنے کی ضرورت

پیر گیلانی نے کہا کہ ہمیں صرف سڑکوں پر نعرے لگانے کے بجائے، اپنی حکمت عملی پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے تین اہم نکات پر زور دیا:

  1. معاشی مزاحمت:
    اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے دشمن کی معیشت کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔ ہر خریداری ایک فیصلہ ہے، جو یہ بتاتی ہے کہ ہم کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔
    انہوں نے BDS (Boycott, Divestment, Sanctions) تحریک کو ایک کامیاب مثال کے طور پر پیش کیا جس نے اسرائیلی کمپنیوں پر حقیقی مالی دباؤ ڈالا۔

  2. روحانی طاقت اور تربیت:
    غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے لیے دعاؤں، تہجد، اور اجتماعی عبادات کے ذریعے روحانی طاقت حاصل کی جائے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں سیرتِ نبویؐ اور قرآن کی تعلیمات کے ذریعے نوجوان نسل کو بیدار کرنا ہوگا۔

  3. علم اور حکمت پر مبنی مزاحمت:
    ہمیں اپنی قوم میں شعور بیدار کرنا ہوگا۔ اس کے لیے تعلیم، مکالمہ، اور تدبر پر مبنی ایک متفقہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی سیرت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ظلم کے خلاف مزاحمت جذباتی نہیں بلکہ عملی، حکیمانہ اور منظم ہوتی ہے۔

دار ارقم کا ماڈل، آج کے لیے سبق

پیر سید محمد علی گیلانی نے دار ارقم کی مثال دی جہاں صحابہ کرامؓ نے خفیہ تربیت اور شعور کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے زور دیا کہ ہمیں بھی اپنی کمیونٹیز میں ایسے مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں مسلمان نوجوان علمی، روحانی اور اخلاقی تربیت حاصل کریں تاکہ وہ مؤثر مزاحمت کے قابل ہو سکیں۔

قرآن کا پیغام: تیاری اور اتحاد

انہوں نے سورۃ محمد اور سورۃ الانفال کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں واضح ہدایت دی ہے کہ اگر ہم اللہ کی مدد کریں گے، وہ ہماری مدد کرے گا، اور کہ دشمن کے مقابلے کے لیے مکمل تیاری رکھنی ہوگی۔

نتیجہ: احتجاج کا نہیں، حل کا حصہ بنیں

پیر گیلانی نے اختتام پر کہا کہ اب وقت ہے کہ ہم اپنا راستہ بدلیں۔ احتجاج، ریلی اور نعرے وقتی جذباتی عمل ہو سکتے ہیں، لیکن اصل تبدیلی صرف اس وقت آئے گی جب ہم معاشی مزاحمت، روحانی جہاد، تعلیم، اور حکمت عملی کو اپنا لیں گے۔

“نعرے نہیں، حکمت اپنائیں۔ جلوس نہیں، جماعت بنائیں۔ احتجاج نہیں، تیاری کریں۔”

یہی وہ راستہ ہے جو فلسطین اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حقیقی مدد کر سکتا ہے — عملی، پائیدار اور مؤثر۔

مزید خبریں