(روشن پاکستان نیوز) برطانیہ میں گروومنگ گینگز (Grooming Gangs) کے خلاف حالیہ برسوں میں سخت اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ یہ گینگز کم عمر لڑکیوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بناتی تھیں، اور ان میں سے بیشتر افراد پاکستانی نژاد تھے۔ یہ اسکینڈل 2000 کی دہائی کے اوائل سے سامنے آیا تھا، لیکن حالیہ برسوں میں اس پر شدید توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
تاریخی پس منظر
2002 میں پہلی بار رپورٹس سامنے آئیں کہ برطانیہ کے مختلف شہروں میں نوجوان لڑکیوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ گینگز ان لڑکیوں کو آن لائن اور آف لائن دونوں طریقوں سے نشانہ بناتی تھیں۔ ابتدائی مرحلے میں پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے کارروائی میں تاخیر اور ناکامی پر شدید تنقید کی گئی۔ متاثرہ لڑکیوں اور ان کے خاندانوں کو انصاف نہ ملنے کی وجہ سے معاشرے میں غم و غصہ پایا جاتا تھا۔
حالیہ پیش رفت
حالیہ برسوں میں برطانوی حکومت نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کئی اہم اقدامات اٹھائے ہیں:
- تحقیقات اور فنڈنگ: برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے گروومنگ گینگز کے خلاف کارروائی کو تیز کرنے کے لیے 10 ملین پاؤنڈز کی رقم مختص کی ہے۔ یہ فنڈز مزید تحقیقات، متاثرین کی مدد، اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔
- نئی قانون سازی: انگلینڈ اور ویلز میں بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف نئے قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔ ان قوانین کے تحت مجرموں کو زیادہ سے زیادہ سزائیں دی جا سکیں گی، اور ان کے خلاف کارروائی میں تاخیر کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
- حالیہ مقدمات: جنوری 2025 میں، ویسٹ یارکشائر کے شہر کیتھلے میں آٹھ افراد کو دو نوعمر لڑکیوں کے جنسی استحصال کے جرم میں مجموعی طور پر 58 سال سے زائد قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ یہ مقدمہ گروومنگ گینگز کے خلاف برطانوی عدالتوں کی سخت رویے کی ایک واضح مثال ہے۔
معاشرتی اور سماجی اثرات
گروومنگ گینگز کے واقعات نے برطانوی معاشرے میں گہری تشویش پیدا کی ہے۔ متاثرہ لڑکیوں کی زندگیوں پر اس کے طویل مدتی اثرات مرتب ہوئے ہیں، اور ان کے خاندانوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مزید برآں، ان واقعات نے نسلی اور سماجی ہم آہنگی کے مسائل کو بھی اجاگر کیا ہے۔ برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی کے خلاف تعصب بڑھنے کے خدشات بھی سامنے آئے ہیں، لیکن کمیونٹی لیڈران نے اس مسئلے پر کھل کر بات کرتے ہوئے مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی حمایت کی ہے۔
مستقبل کے اقدامات
برطانوی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ہو اور متاثرین کو انصاف ملے۔ اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات پر توجہ دی جا رہی ہے:
- آگاہی مہم: معاشرتی سطح پر آگاہی اور تعلیم کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اسکولوں اور کمیونٹی سنٹرز میں بچوں اور والدین کو اس خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے خصوصی پروگرامز کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔
- پولیس کی تربیت: پولیس اہلکاروں کو اس طرح کے مقدمات سے نمٹنے کے لیے خصوصی تربیت دی جا رہی ہے تاکہ وہ متاثرین کے ساتھ بہتر سلوک کر سکیں اور تحقیقات کو تیز کر سکیں۔
- کمیونٹی تعاون: پاکستانی اور دیگر اقلیتی کمیونٹیز کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ ان مسائل کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔
گروومنگ گینگز کے خلاف برطانیہ کی سخت کارروائی اور نئی قانون سازی نے امید پیدا کی ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات میں کمی آئے گی۔ تاہم، اس مسئلے کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے معاشرتی سطح پر بیداری اور تعاون کی ضرورت ہے۔ برطانوی حکومت کا عزم ہے کہ وہ متاثرین کو انصاف دلانے اور معاشرے میں امن و امان قائم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔
مزید پڑھیں: برطانیہ میں کتوں کی چوری: گزشتہ سال میں قریب 2,000 کتوں کی چوری