پاکستان دہشت گردوں کے نرغے میں

تحریر: داؤد درانی

یوں لگتا ہے کہ پاکستان اس وقت صرف دو صوبوں پنجاب اور سندھ پر مشتمل ملک ہے کیونکہ باقی دو صوبوں پختونخوا اور بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے مرکزی حکومت اس سے بالکل لاتعلق دکھائی دے رہی ہے ۔
خیبرپختونخوا میں طالبان اور بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند دہشت گردوں کا راج ہے ۔اگر دیکھا جائے تو عملاً ان دو صوبوں میں صوبائی حکومتوں کی رٹ ختم ہو چکی ہے اور دہشت گردی کا جن ان دونوں صوبوں میں دندناتا ہوا پھر رہا ہے اور کسی میں اتنا دم نہیں کہ اس جن کو قابو کر کے بوتل میں بند کر سکے ۔
بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک وقت کے ساتھ ساتھ زور پکڑتی جا رہی ہے اور اب حالت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ غیر بلوچوں خاص طور پر پنجابیوں کے لیے بلوچستان نو گو ایریا بن گیا ہے ۔اسی طرح پنجابیوں کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی اداروں کے لیے بھی بلوچستان خوف کی علامت بن گیا ہے کیونکہ بلوچ علیحدگی پسند پنجابیوں کے علاوہ سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں ۔

تشویش کی بات یہ ہے کہ پختونخوا میں اگر طالبان کی طرف سے دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو صوبے کے عوام اور سیاسی لیڈران اس کی بھر پور مذمت کرتے ہیں مگر دوسری طرف بلوچستان میں اگر بلوچ علیحدگی پسند ( جنہیں بلوچی میں سرمچار کہا جاتا ہے ) کی طرف سے دہشت گردی کی جاتی ہے تو بلوچستان کے لوگ بلعموم اس کی مذمت نہیں کرتے اور انکی ہمدردیاں ان سرمچاروں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں ۔
اب یہ بات پوری طرح سے واضح ہو رہی ہے کہ یہ دہشت گردی پاکستان کی ریاست کے خلاف ایک ہائی برڈ جنگ ہے جو روایتی طریقوں کی بجائے ہائی برڈ طرز سے لڑی جا رہی ہے اور دشمن اپنے گھر میں بیٹھ کر بغیر اپنے دفاعی نقصان کے ہمیں نشانہ بنا رہا ہے ۔
وہ زمانہ گیا جب دو ملک سرحدوں پر ایک دوسرے کے خلاف لڑ کر اپنی جانی اور مالی طاقت کو ضائع کرتے تھے ۔ پاکستان اور بھارت نے 1965 ، 1971 ، سیاہ چین اور کارگل میں ایک دوسرے کے خلاف روایتی جنگیں لڑیں جس میں دونوں کا بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا ۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان کا کوئی دشمن اس کے خلاف ہائی برڈ جنگ لڑی رہا ہے تو پاکستان کیا کر رہا ہے ؟ کیا پاکستان اپنے دشمن کو ہائی برڈ طریقے سے جواب نہیں دے سکتا ؟

پاکستانی حکمران کب تک گھسے پٹے بیانات کے زریعے اپنے عوام کو دھوکہ دیتے رہینگے کہ ملک میں دہشت گردی کی اجازت نہیں دے جائے گی اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھیڑ دینگے وغیرہ وغیرہ ۔
عجیب بات یہ ہے کہ حکومت بار بار یہ کہ رہی ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی مگر دہشت گرد تنظیمیں بغیر اجازت کے دہشت گردی میں مصروف ہیں اور پھر بھی حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔
دہشت گردی کی یہ آگ ابھی اسلام آباد ، لاہور اور کراچی سے چونکہ دور ہے اس لیے اس کی تپش محسوس نہیں کی جا رہی لیکن اگر بلوچستان اور پختونخوا میں لگی اس آگ پر فوری طور پر قابو نا پایا گیا تو بہت جلد یہ آگ پنجاب اور سندھ تک بھی پھیل سکتی ہے ۔
ہمارے حکمران کب تک پنجاب اور سندھ کو ہی پاکستان سمجھ کر اپنے آپ کو دھوکہ دیتے رہینگے ؟ اگر بزور شمشیر ہم مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے سے نا روک سکے تو کیا بلوچستان کے حالات پر ہم بزور شمشیر قابو پا سکیں گے ؟
ہمارے حکمرانوں اور تمام سیاسی لیڈروں کو فوری طور پر اپنی سیاسی دشمنیاں بھلا کر سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا کہ بلوچستان اور پختونخوا میں لگی ہوئی دہشت گردی کی اس آگ کو کیسے ٹھنڈا کیا جائے ۔

ہم اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان دو صوبوں میں دشمن ہائی برڈ طریقے سے پاکستان کے خلاف جنگ لڑی رہا ہے تو ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ دشمن کو یہ مواقع کون اور کس طرح فراہم کر رہا ہے کہ ان دو صوبوں کے اپنے لوگ دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔
اگر بلوچستان کے عوام کو انکا جائز حق بروقت دے دیا جاتا تو آج وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے دشمن کے آلہ کار نہ بنتے۔ اگر افغانستان میں غیر ضروری مداخلت نا کی جاتی تو وہ ہمارے خلاف ہمارے دشمن کا ساتھ شاید نا دیتا ۔
بلوچستان کے علاقے سوئی کی قدرتی گیس کراچی ، حیدر آباد ، لاہور ، اسلام آباد اور پشاور تک تو چالیس ، پچاس سال پہلے پہنچ گئی مگر بلوچستان کی بڑی اکثریت آج بھی اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہے ۔
وقت تیزی سے نکلتا جا رہا ہے بلوچستان اور پختونخوا میں امن ریت کی طرح حکمرانوں کی میٹھی سے پھسل رہا ہے لہذا اب بھی اگر ہم نے شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے کر اپنے آپ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی تو پاکستان کے وجود کو خطرہ ہے ۔

مزید خبریں