اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز) سوشل میڈیا پلیٹ فارم یوٹیوب پر عروہ خان نامی ایک ڈانسر کی مختلف ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں۔ یہ ویڈیوز نہ صرف سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنی ہوئی ہیں، بلکہ ان پر مختلف حلقوں سے تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ ہمارے معاشرتی ماحول میں گناہ اور غیر اخلاقی عمل کو اب ایک عام بات سمجھا جانے لگا ہے، جس کی وجہ سے ہم تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہماری نوجوان نسل ہو رہی ہے جو ان غیر اخلاقی ویڈیوز اور مواد کی طرف راغب ہو کر اپنی اخلاقی اقدار سے دور ہو رہی ہے۔
ان ویڈیوز کے وائرل ہونے کے بعد ایک تشویش ناک سوال سامنے آیا ہے کہ ہماری مساجد اور مدارس کے اذہان پر اثر ڈالنے والی قوتیں خاموش تماشائی کیوں بنی ہوئی ہیں؟ ہمارے مذہبی رہنماؤں کی خاموشی نے اس بے ہودہ مواد کو جواز فراہم کیا ہے اور اس نے معاشرتی اخلاقیات کو متاثر کیا ہے۔ ہم مسلمان معاشرہ کس طرف جا رہے ہیں؟ ایک طرف تو ہم اپنے معاشرتی و مذہبی اقدار کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف ایسے مواد کی پزیرائی کی جا رہی ہے جو ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
دوسری جانب، پاکستانی معاشرت میں اس وقت ایک اور سنگین مسئلہ سامنے آیا ہے جس پر کم ہی لوگ توجہ دیتے ہیں: شادیوں پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے، جب کہ دوسری طرف لاکھوں لوگ ہیں جن کے پاس دو وقت کی روٹی کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ شادیوں میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے جبکہ وہ پیسہ کسی غریب کی مدد کے لیے استعمال ہو سکتا تھا، جو اپنی روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ یہ تضاد نہ صرف اخلاقی بلکہ سماجی سطح پر بھی ایک بڑا سوال ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بیٹیاں اللہ کی نعمتیں ہیں، اور ان سے متعلق ہماری ذمہ داریوں میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے۔ شادیوں کی ایک لازمی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کی حالت میں تکلف اور نمائش کے بجائے سادگی اور اخلاقی معیار کو فروغ دینا چاہیے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے معاشرتی رویوں پر نظر ثانی کریں اور اسلامی تعلیمات اور اخلاقیات کو فروغ دینے کے لیے عملی اقدامات کریں۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ایف نائن پارک میں خواتین پر تشدد کا واقعہ: کیا اسلامی معاشرہ ایسے اقدامات کی اجازت دیتا ہے؟
بدقسمتی سے، جب ہم مساجد اور مدارس کو مناسب فنڈز فراہم نہیں کرتے، تو اس کا اثر ہمارے معاشرتی معیار پر پڑتا ہے۔ اس ماہ مقدس رمضان میں ہمیں ان مسائل پر توجہ دینی چاہیے اور حکومت کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اسلامی اصولوں پر عمل کرنے اور اخلاقی تربیت کے اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر حکومت اور عوام نے اس سمت میں قدم نہ اٹھایا تو ہم ایک ایسی نسل کو پیدا کریں گے جو اخلاقی طور پر بے راہ روی کا شکار ہو گی اور جسے صرف اپنی ہی خواہشات کا خیال ہوگا، جو کہ پاکستان کے مستقبل کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہو گا۔