لندن(روشن پاکستان نیوز) برطانیہ کی قانونی تاریخ کی سب سے بڑی منی لانڈرنگ سازش کا پردہ فاش ہونے کے بعد، چار افراد کو مجموعی طور پر 200 ملین پاؤنڈ کی غیر قانونی رقم کو قانونی بنانے کی کوشش میں ملوث ہونے پر جیل کی سزا سنائی گئی۔ ان میں 47 سالہ گریگوری فرینکل، 47 سالہ ڈینیئل راوسن، 54 سالہ ہارون رشید اور 32 سالہ ارجن ببّر شامل ہیں، جنہوں نے مجرمانہ پیسہ چھپانے کے لیے اسے سونے میں تبدیل کر کے دبئی اسمگل کرنے کی سازش تیار کی تھی۔
یہ معاملہ برطانیہ میں سب سے بڑے منی لانڈرنگ آپریشنز میں سے ایک سمجھا جا رہا ہے، اور اس کا انکشاف پولیس کی 8 سالہ تحقیقات کے دوران ہوا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمان نے 2014 سے 2016 کے دوران غیر قانونی رقم کو بریڈفورڈ میں قائم جیولرز، لندن میں کاروباری مقام، اور ہیٹن گارڈن میں موجود پیور نائنز کمپنی کے ذریعے ملک کے بینکنگ سسٹم میں داخل کیا تھا۔ اس رقم سے سونا خریدا جاتا تھا، جسے پھر دبئی بھیجا جاتا تھا۔
عدالتی کارروائی کے دوران یہ بھی سامنے آیا کہ “گندا پیسہ” شاپنگ بیگ، ہینڈ بیگ، فاسٹ فوڈ کے ڈبے اور بچوں کے کھلونوں میں چھپ کر لایا جاتا تھا۔ اس رقم کو کاروباری مقام پر موجود خصوصی مشینوں سے گنا جاتا اور پھر مزید کارروائی کے لیے تیار کیا جاتا۔
ملزمان کے خلاف مقدمہ چلانے والے پراسیکیوٹر ہنہ وان ڈیڈلزین نے کہا کہ یہ کیس انگلینڈ اور ویلز میں عدالتوں تک پہنچنے والا سب سے بڑا منی لانڈرنگ کیس ہے، اور آج ان افراد کے خلاف انصاف ہو چکا ہے۔
اس آپریشن کے دوران پولیس نے ایک انتہائی منظم اور پیچیدہ تحقیقات کے ذریعے اس سازش کو بے نقاب کیا اور ملزمان کے خلاف کارروائی کی۔ ویسٹ یارکشائر پولیس کے اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل پیٹ ٹوئگس نے کہا کہ یہ آپریشن مجرمانہ سرگرمیوں سے جڑی بھاری رقم کو قانونی بنانے کے لیے تیار کیا گیا تھا، اور ان کی محنت اور عزم کے نتیجے میں انصاف کی فراہمی ممکن ہوئی۔
مزید پڑھیں: برطانیہ کے شاہی قلعہ ونڈسر میں پہلی بار اوپن افطار کا اہتمام، بین المذاہب ہم آہنگی کا اہم قدم
سزائیں سناتے ہوئے عدالت نے اس منی لانڈرنگ کی سازش کے حجم کو “حیران کن” قرار دیا، اور ان افراد کو مختلف مدت کی قید کی سزائیں سنائیں۔ ان کے خلاف تحقیقات اور کارروائی نے یہ ثابت کر دیا کہ قانون سے چھپ کر کوئی بھی ایسی سرگرمیاں طویل عرصے تک نہیں چل سکتی ہیں۔