کالم —— بُریدۂ سَر
✍ ملک کاشفؔ اعوان ™
چکوال، پنجاب، پاکستان
آج پچیس فروری ہے اور میں سفر میں ہوں۔ پچھلے تین سالوں سے ہر پچیس فروری کو ایک سفر دَرپیش ہوتا ہے۔ سفر… جی بالکل اُردُو والا سَفَر۔ پچیس (۲۵) فروری ہماری قومی زبان… زبانِ مَن، زبانِ یار، زبانِ دل… اُردُو کا قومی دِن ہے۔ اُردُو سے محبّت رکھنے والے اس دن کو منفرد سمجھتے ہیں اور ایک اُمید کی لَو گردانتے ہیں —— ایک اُمید کہ وطنِ عزیز میں اُردُو راج کرے گی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کے ایک فیصلے کے طُفیل مُحبّانِ اُردُو کو انگریزی اندھیرنگری میں دُور کہیں اُجالا دکھائی دے رہا ہے مگر دُور تو کتنی دور؟ اب نالۂ دل اکثر شکوہ کناں رہتا ہے کہ خط و کتابت اُردو میں کرنے کا حکم دینے والے اُردو میں فیصلے لکھنا کب شروع کریں گے؟
آج کی پچیس فروری کو بھی موسم صُبح سے اَبر آلود ہے۔ میں کلرکہار کی اَبر سے ڈھکی خُنک پہاڑیوں میں کھڑا تھا۔ آسمان سے چھاجوں برستا مینہ ذرا تھم گیا تھا۔ ہلکی پھلکی بوندیں ابھی بھی گر رہی تھیں۔ ہمیں موٹروے پولیس نے سالٹ رینج پر روک رکھا تھا۔ ابھی کچھ دیر میں کارواں چلنے کو تھا اور ہماری پی ایس وی کو بھی اسی کارواں کے ساتھ دھیرے دھیرے سلسلہ کوہِ نمک کی ان پہاڑیوں سے نیچے اُترنا تھا کہ ہماری منزل لاہور تھی۔
میں بارش کا نظارہ کرنے گاڑی سے نیچے اُتر آیا تھا۔ خنکی پورے ماحول پر چھائی ہوئی تھی۔ صبح کے نو بجے بھی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے رات کا سناٹا ہو۔ ہوا میں خنکی اور دل میں ایک انجان سی اداسی کا راج تھا۔ میں پیر کھارا کی پہاڑیوں پر بھاگتے پھرتے بادلوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک ایک ہلکی سی سرگوشی سنائی دی —— “مجھے بھول گئے؟”
چونک کر پلٹا تو میرے سامنے ایک منحنی سی نستعلیق شخصیت کھڑی تھی۔ پہلی نظر دیکھتے ہی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے تاریخ کے کسی پنّے سے نکل کر میرے سامنے آن کھڑی ہوئی ہو۔ سفید بُراق کرتے پائجامے پہ کمر بند باندھے، سر پہ تُرکی ٹوپی سجائے ایک مانوس سی دھندلکے میں کھوئی کھوئی سی شبیہہ موجود تھی۔ لباس میں وقار، آنکھوں میں اداسی، اور چہرے پر ایک عجیب سی شگفتگی۔ میں نے حیرانی سے پوچھا —— “آپ کون؟”
نووارد نے زندگی سے بھرپور ایک مسکراہٹ میری جانب اُچھالی —— “ذرا لاہور تک سفر کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ بھولے بسرے لوگوں سے ملنا ہے۔ کچھ پرانے دوست رہتے ہیں اُدھر۔”
“میرے ساتھ ہی سفر کرنا ہے؟” —— میں نے دوبارہ سے پوچھا۔ مجھے لگا جیسے مجھے سُننے میں غلطی ہو گئی ہو۔
“اگر مجھے لے جائیں گے تو کچھ باتیں ہو جائیں گی۔ پھر کچھ دوستوں سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔ آپ چہرے مہرے اور حلیے سے کتاب دوست دکھائی دیتے ہیں۔ اچھا سفر کٹنے کی اُمید ہے۔” —— تبسم اُن کے ہونٹوں پر کھلا پڑ رہا تھا۔
“اوہ کتاب دوست…” —— اس بات نے مجھے اور کچھ کہنے ہی نہ دیا۔ ہم دونوں گاڑی کی پچھلی نشست پر آ بیٹھے۔
“اب تو بتا دیں کہ آپ کون ہیں؟” —— میں نے استفسار کیا۔
وہ مسکرا کر بولے —— “پہچانا نہیں؟ میں اُردو ہوں۔”
میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ یہ تو وہی اُردو تھی جس نے بچپن میں میری سُنی اور یاد کی گئی نظموں میں محبت بھری تھی، جس نے مجھے پہلا شعر پڑھایا تھا، جس نے میرے خوابوں کو لفظوں کا پیرہن دیا تھا۔ میں ایک عجیب سے ٹرانس میں تھا۔ مسلسل نظریں جمائے، ساکت دیکھتا رہا اور پھر میں نے تھوڑا اُن کی طرف جھک کر سرگوشیانہ لہجے میں کہا: “اُردو! تُم؟ مطلب… مطلب آپ… آپ یہاں؟”
وہ افسردگی سے بولے —— “ہاں! میں… اُردُو، جو کبھی اس ملک کی پہچان تھی… آج بے ثباتی کے عالم میں بھٹک رہی ہے۔”
میرے چاروں طرف افسردگی سی افسردگی تھی۔ مجھے اچانک ولیؔ دکنی کی یاد آئی، جنہوں نے اردو کو پہلی بار شعر کی نزاکت بخشی تھی۔ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا —— “ولیؔ کے اشعار میں تو آپ کی خوشبو بستی تھی۔”
اُردو کی شفاف آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے یوں جیسے شفاف آئینوں پہ دُھند سی چھا جائے —— “ہاں… وہ ولیؔ جس نے مجھے فارسی کے جبر سے آزاد کرایا۔ مگر آج میری اپنی اولاد مجھے انگریزی کی زنجیروں میں جکڑ رہی ہے۔”
میرے دل میں سے ایک عجب سی ٹیس اٹھی۔ یوں جیسے میر تقی میرؔ کی غزلوں کا سارا غم اور کرب میری روح میں گھل گیا ہو۔ میں نے بولا تو میرا لہجہ اندرونی غم سے شکستہ تھا —— “مگر میرؔ کے دیوان میں تو آپ کا درد امر ہو چکا ہے۔”
اُردو نے ایک سرد آہ بھری —— “میرؔ کا درد آج بھی میرے دل کا حال بیان کرتا ہے۔ اور ایک لازوال مصرعہ ‘ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو غالبؔ’… وہ غالبؔ جس نے میرے لفظوں کو لازوال بنا دیا تھا، آج اس کے دیوان کو بھی گرد نے ڈھانپ لیا ہے۔”
گاڑی فراٹے بھرتی اب بھیرہ سے آگے نکل چکی تھی۔ خنکی ہوا ہو چکی تھی اور وسطی پنجاب کی گرم مرطوب آب و ہوا ہمارا استقبال کرنے کو تیار بیٹھی تھی۔ میری آنکھوں کے سامنے غالبؔ کا سراپا آ گیا۔ وہ دہلی کے کوچے، وہ محفلیں، وہ نکتہ سنجی…
میں نے حسرت سے کہا —— “مگر غالبؔ کی زبان تو آج بھی زندہ ہے، اس کے اشعار تو ہر عاشق کے لبوں پر ہیں۔”
اُردو کی آنکھوں میں نمی اور لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی —— “ہاں مگر وہ غالبؔ کے اشعار کو سمجھتے کب ہیں؟ انہیں تو بس ردیف اور قافیہ پسند ہے، معنی سے نا آشنا ہیں۔”
ہم دونوں کی گفتگو میں محمد حسین آزاد کا ذکر آیا، جنہوں نے اردو کو نثر میں دلکشی بخشی تھی تو میں نے کہا —— “آزادؔ نے تو اردو کو نثر کی شائستگی بخشی، ان کے مضامین تو آج بھی دل کو چھو لیتے ہیں۔”
اردو نے سر جھکا لیا۔ دھیرے سے بولے —— “مگر آج کے نوجوان کو آزادؔ کے مضامین کی نزاکت اور گہرائی کی سمجھ کہاں؟ ان کے لیے تو زبان محض ایک ذریعہِ پیغام ہے، جذبات کی ترجمان نہیں۔”
مجھے اُن کا لہجہ انتہائی بوجھل سا لگا۔ اسی بوجھل لہجے میں وہ دھیمے دھیمے بولے…
سینکڑوں اور بھی دنیا میں زبانیں ہیں — مگر
جس پہ مرتی ہے فصاحت وہ زباں ہے اردو
ہماری گفتگو آزادؔ سے ہوتے ہوئی جامعہ عثمانیہ تک آ پہنچی۔ نظام حیدرآباد کی بات ہوئی تو مولوی عبدالحق کا نام لبوں پر آیا۔ بابائے اردو، جنہوں نے اردو کے فروغ کے لیے زندگی وقف کر دی۔ میں نے فخر سے کہا —— “مگر بابائے اردو نے آپ کی حفاظت کے لیے کتنی محنت کی۔”
اُردو کی آواز میں عجب درد پنہاں تھا —— “ہاں مگر ان کی محنت آج انگریزی میڈیم اسکولوں کی بھیڑ میں کھو گئی ہے۔ جس زبان کو بابائے اردو نے سینچا، آج وہ اپنے ہی ملک میں اجنبی بن گئی ہے۔”
مگر اُردو پھر بھی اُردُو ہے۔اُردُو ہے تو نزاکت ہے، سلیقہ ہے، محبّت ہے…
وہ اُردو کا مسافر ہے، یہی پہچان ہے اس کی
جدھر سے بھی گزرتا ہے سلیقہ چھوڑ جاتا ہے
ہم نے فیصل آباد ملتان موٹروے کے پُل کو پار کیا تو اچانک سے میرے دل میں فیض احمد فیضؔ کے اشعار گونجنے لگے۔ میں نے بے ساختہ کہا —— “مگر فیض کی غزلیں، انقلابی شاعری… وہ تو آج بھی گونجتی ہیں۔”
اردو نے سر اٹھا کر کہا: “ہاں، مگر فیض کے اشعار اب محض نعرے بن کر رہ گئے ہیں، ان میں چھپے کرب اور درد کو کون محسوس کرتا ہے؟”
ہماری اب تک کی ساری گفتگو کا محور محض شاعر ہی تھے۔ کیا اُردو صرف شاعروں کی ہی محبوبہ تھی؟ مجھے قرۃ العین حیدر کی کہانیاں یاد آئیں اور انتظار حسین کے افسانے… جنہوں نے اردو کو افسانوی رنگ بخشا۔ میں نے اشتیاق سے کہا —— “مگر قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کی نثر تو آج بھی ادب کی معراج ہے۔”
اردو نے ٹھنڈی سانس بھری —— “مگر آج کے قاری کو اس پیچیدگی سے وحشت ہوتی ہے۔ وہ تو سادہ، مختصر، اور آسان زبان کا طلبگار ہے۔”
دور سے کہیں اُستاد داغؔ دہلوی پُکار رہے تھے…
اردو ہے جس کا نام… ہم ہی جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
مجھے یوں لگا جیسے میری اپنی روح میں ایک خالی پن ہے۔ میں اندر سے کھوکھلا ہوں، خالی ہوں۔ جیسے میں نے خود اُردو کے ساتھ بے وفائی کی ہو۔ میں نے شرمندگی سے کہا —— “مگر میں تو آپ سے محبت کرتا ہوں۔”
اُردو نے محبت بھری نظر مجھ پر ڈالی —— “ہاں، مگر محبت کا حق ادا نہیں کیا۔ میری بقا کے لیے محض محبت نہیں، جدوجہد چاہیے۔ مجھے کتابوں میں بند مت کرو، مجھے دلوں میں بسا لو۔ مجھے محفلوں میں گاؤ، مجھے کلاس رومز میں پڑھاؤ، مجھے خطوط میں لکھو، مجھے خوابوں میں سجاؤ۔”
لاہور آ چُکا تھا۔ تاریخ کے اوراق سے نکل کر آنے والے اُس نستعلیق شخصیت نے رُخصت مانگی۔ میں نے اُن کا ہاتھ تھام کر پوچھا —— “مگر یہاں لاہور میں کریں گے کیا؟۔”
اُنہوں نے مسکرا کر میری جانب دیکھا اور بولے —— “کچھ دوست ہیں پُرانے یہاں۔ اقبالؔ، حفیظؔ، اخترؔ و آزادؔ سے ملوں گا۔ پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھ کر چائے پیوں گا۔ ہم ایسے لوگوں کے لیے نوسٹلجیا بھی تو ایک نعمت ہی ہے۔” وہ ابھی بھی مسکرا رہے تھے۔
یہ لوگ کون ہیں؟ میں اپنے ہی خیالوں میں کھو گیا اور انہیں الوداع کرنا ہی بھول گیا۔ یہ کہیں علامہ اقبال، حفیظ جالندھری، محمد حسین آزاد و اختر شیرانی کی بات تو نہیں کر رہے تھے؟ مجھے جیسے خیال آیا… میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ جا چکے تھے۔
روز اک افسانہ سا چھڑ جاتا ہے باتوں باتوں میں…
بات ادھوری رہ جاتی ہے روز اک اردو والی سے
حافظے میں موجود وہ نستعلیق شبیہہ بھی دھندلی ہونے لگی مگر اس کی آواز میرے دل میں گونجتی رہی —— “اگر میں مر گئی، تو تمہاری تہذیب، تمہاری شناخت، تمہارے خواب سب مر جائیں گے۔”
میں نے بے بسی سے اُس مٹتی ہوئی شبیہہ کی جانب ہاتھ بڑھایا —— “نہیں! اُردو! مت جاؤ!”
مگر وہ غم کی دھند میں گم ہوگئی۔
شہر کے شور شرابے میں مجھے ہوا کی سرگوشی سنائی دی —— “مجھے بھول نہ جانا… مجھے مرنے نہ دینا…”
میں کھڑکی کے پاس بیٹھا رہا۔ دل میں عزم اور آنکھوں میں نمی تھی۔ “ہاں! میں اردو کو مرنے نہیں دوں گا۔”
یہ محض زبان نہیں، میری شناخت، میری تہذیب، میرے جذبات کی ترجمان ہے —— “میں اردو کو زندہ رکھوں گا۔” یہ ایک عہد تھا۔ مجھے یوں لگا میرے ساتھ ساتھ لاہور شہر کا بے ہنگم ٹریفک بھی اقبال اشعرؔ کی یہ نظم دہرا رہا ہے…
اُردو ہے میرا نام میں خُسروؔ کی پہیلی
میں میرؔ کی ہمراز ہوں غالبؔ کی سہیلی
دکّن کے ولیؔ نے مجھے گودی میں کھلایا
سوداؔ کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا
ہے میرؔ کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا
میں داغؔ کے آنگن میں کھلی بن کے چمیلی
اردو ہے میرا نام میں خُسروؔ کی پہیلی
غالبؔ نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا
حالیؔ نے مروّت کا سبق یاد دلایا
اقبالؔ نے آئینہ حق مجھ کو دکھایا
مومنؔ نے سجائی میرے خوابوں کی حویلی
اُردو ہے میرا نام میں خُسروؔ کی پہیلی
ہے ذوقؔ کی عظمت کہ دیئے مجھ کو سہارے
چکبستؔ کی الفت نے میرے خواب سنوارے
فانیؔ نے سجائے میری پلکوں پہ ستارے
اکبرؔ نے رچائی میری بے رنگ ہتھیلی
اُردو ہے میرا نام میں خُسروؔ کی پہیلی
کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا
دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ
اپنے ہی وطن میں میں ہوں مگر آج اکیلی
اُردو ہے میرا نام میں خُسروؔ کی پہیلی
•••••