گئے زمانے کی بات ہے ایک گاوں میں میراثی نے اپنے بیٹے کو بیرون ملک ملازمت کے لیے بھیج دیا، نصیب اچھا تھا کہ میراثی کا لڑکا پڑھ لکھ بھی گیا اور ملازمت میں ترقی ہوتی گئی۔۔ اتنا پیسہ کما لیا کہ گاوں میں بہت اچھا مکان بنا لیا۔۔ ایسی کوئی نعمت نہیں تھی جو اس کے گھر میں نہ تھی۔۔
ماں باپ کے لیے گاڑی لے لی۔۔ چھوٹی بہن کا بیاہ کیا تو ایسے انتظامات کیے کہ کیا کوئی نواب کرے گا۔۔ گاوں کے لوگوں کی مدد بھی کرتے رہتے اس لیے میراثی کی بھی لوگ عزت کرنے لگے۔۔ گاڑی بھی اچھی لے لی۔۔ ایسے حالات دیکھ کر گاوں کے چوہدری نے بھی میراثی سے دوری ختم کر دی۔۔ اور اکثر کہیں ملاقات ہو جاتی تو اسے اپنے ساتھ ہی بٹھا لیتا۔۔
کچھ عرصے تک میراثی کو جھجھک رہی پھر اس نے بھی شرمانا چھوڑ دیا۔۔ وہ بھی اب چوہدری سے دوستانہ انداز میں ملا کرتا۔۔ ایسے میں میراثی کے لڑکے نے باپ کو فون کیا کہ وہ کچھ عرصے بعد چھٹیوں پر پاکستان آ رہا ہے اور ان چھٹیوں میں اس کا ارادہ ہے کہ وہ شادی بھی کر کے جائے گا۔
باپ کو خیال آیا کہ چوہدری کی لڑکی بہت خوبصورت ہے کیوں نہ اس سے بات کی جائے۔۔ اس نے اپنی بیوی سے بات کی بیوی نے بھی فوراً کہا کہ بالکل رشتہ ڈال دیں۔۔ میراثی نے کہا بھلی مانس، یہ نا ہو کہ چوہدری انکار کر دے۔۔ میراثن بولی کہ کیوں انکار ہو گا۔۔ ہمارے پاس کس شے کی کمی ہے؟۔۔
بیوی سے بات کر کے میراثی میں بہت اعتماد پیدا ہوا۔۔ اس نے اپنا بہترین کلف لگا سوٹ نکلوایا، اس پر بہترین فرانسیسی پرفیوم سپرے کیا، شاندار کلاہ سر پر رکھا، اپنی ہنڈا سوک گاڑی میں بیٹھا۔۔ اور چوہدری کی حویلی پہنچ گیا۔۔ تین چار ملازمین نے ہاتھوں میں مٹھائیوں کے ٹوکرے، تحائف وغیرہ اٹھا رکھے تھے۔۔
چوہدری اس طرح میراثی کو آتے دیکھ کر حیران ہوا پھر ملازمین سے کہا اسے بیٹھک میں بٹھاؤ۔۔ جب چوہدری بیٹھک میں آیا تو میراثی نے بہت کس کے چوہدری کو جپھی ڈالی۔۔ چوہدری نے حیرانگی سے پوچھا۔۔ خیر تو ہے۔۔ آج اتنا سامان لے کر کیوں آیا ہے؟۔
میراثی نے کچھ کتابیں پڑھی ہوئی تھیں، ان کا رٹا رٹایا جملہ بول دیا۔۔ جس گھر میں بیری کا درخت ہو، پتھر تو آتے ہیں۔۔ چوہدری نے ہسنتے ہوئے کہا کہ آج بجھارتیں کیوں ڈال رہا ہے، کھل کے بات کر۔۔ میراثی کا حوصلہ مزید بلند ہوا اور وہ بولا چوہدری صاحب میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی دوستی کو رشتے داری میں بدل لیں۔۔ چوہدری کا موڈ تھوڑا تبدیل ہوا، پھر بھی دھیرے سے کہا کھل کے بات کر۔۔
میراثی بولا چوہدری صاحب، میرے بیٹے کو تو آپ جانتے ہیں، امریکا میں بہترین نوکری کر رہا ہے، جائیدادیں یہاں بھی اور امریکا میں بھی بہت بنائی ہیں۔۔ پیسے کی بھی ریل پیل ہے۔۔ اس کی شادی کرنا چاہتے ہیں اور آپ کی بیٹی بھی جوان ہو چکی ہے اس لیے آپ کی بیٹی کا رشتہ اپنے بیٹے کے لیے مانگنے کے لیے آیا ہوں۔۔
چوہدری تو آپے سے باہر ہو گیا، اس نے کھڑے کھڑے جو الٹے ہاتھ کا جھانپڑ رسید کیا تو میراثی کا کلاہ چوہدری کے کتے کے پیروں میں جا گرا۔۔ میراثی خود زمین پر گرا۔۔ تھپڑ اتنا زناٹے دار تھا کہ میراثی کو سنائی دینا بند ہو گیا مگر اتنی آواز ضرور آئی کہ مارو اس کنجر کو۔۔
اس کے بعد چوہدری کے پلے پلائے ملازمین نے پیٹ پیٹ کر میراثی کا بھرکس نکال دیا۔۔ ٹھڈے، مکے، ڈنڈے، ہر طرح سے مار مار کر میراثی کا منہ ہی بگاڑ دیا۔۔ میراثی کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا؟۔۔ کتے کے پیروں کے پاس سے اپنا کلاہ اٹھایا، جھاڑ کے سر پر رکھا، کپڑوں کو جھاڑا، الٹے ہاتھ کے ساتھ منہ سے نکلتے خون کو صاف کیا۔۔
دروازے کی طرف مڑا۔۔۔ پھر خیال آیا کہ چوہدری کا چہرہ تو دیکھوں۔۔ مڑ کے دیکھا تو چوہدری کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت دیکھی۔۔ پھر بھی گلا صاف کر کے پوچھا۔۔ فیر چوہدری صاحب۔۔ تواڈے ولوں انکار سمجھاں؟ (پھر چوہدری صاحب، آپ کی طرف سے انکار سمجھوں؟)۔۔ چوہدری نے ملازم کو آواز لگائی کہ اس کتے پر کتا چھوڑ دو۔۔
میراثی بے چارہ جان چھڑا کے بھاگا اور بمشکل گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی گھر کو نکال لی۔۔ بیوی نے جب میراثی کا بگڑا ہوا حلیہ دیکھا تو بہت حیران ہوئی اور پوچھا کیا ہوا؟۔ میراثی نے جو تمام کہانی سنائی تو بیوی بولی کہ شاید تجھ سے چوہدری کے سامنے صحیح طرح بات نہیں ہو پائی۔۔۔ اس طرح کر کہ اپنی تمام بات ایک خط میں لکھ اور وہ چوہدری کو بھیج۔۔
میراثی کو یہ آئیڈیا بھی پسند آیا۔۔ اس نے خط لکھا اور ملازم کے ہاتھ چوہدری کو بھجوا دیا۔۔ میراثی کے ملازم کو دیکھتے ہی چوہدری نے میراثی کو وہ گالیاں نکالیں کہ اللہ کی پناہ۔۔ وہ بے چارہ خط دئیے بغیر ہی واپس بھاگ آیا مگر شرم کے مارے پوری بات میراثی کو بتا نہیں پایا۔۔ لیکن پھر بھی جواب تو دینا تھا جھوٹی موٹی کہہ دیا کہ چوہدری نے کہا ہے کہ مسجد میں ملنا۔۔
میراثی بہت خوش ہوا، تیار ہو کر مسجد پہنچا اور سب سے پہلے جا کر مسجد کے باہر کھڑا ہو گیا۔۔ چوہدری کے آنے پر بھاگ کر میراثی نے چوہدری کی گاڑی کا دروازہ کھولا۔۔۔ چوہدری نے میراثی کو دیکھتے ہی کہا، او بے غیرت تو پھر آ گیا؟ پھر اسے گندی گالیاں نکالنا شروع کر دیں اور اپنے ملازموں سے کہا کہ مارو اسے۔۔
جب ملازمین مار مار کے تھک گئے تو انہوں نے میراثی کو ٹھڈے مار کے گاڑی سے دور کر دیا۔۔ میراثی نے چوہدری کو مسجد میں جاتے دیکھ کر کہا خط کا جواب تو دے دو چوہدری صاحب۔۔ چوہدری نے موٹی سی گالی نکال کر کہا لعنت تیرے پر بھی اور تیرے خط پہ بھی۔۔ تیرا کوئی خط ملا اور نا ہی اسے پڑھنے کا کوئی شوق ہے۔
میراثی نے مری مری آواز میں کہا چوہدری صاحب، اب بھی نہیں سمجھ پایا، کیا اسے آپ کی جانب سے انکار سمجھوں؟۔۔۔ چوہدری نے اپنا سر پیٹ لیا۔
میراثی پھر بھی سمجھ نہیں پایا کہ چوہدری کا یہ رویہ کیوں ہے جبکہ چوہدری یہ سوچ رہا تھا کہ یہ بندہ اتنا ڈھیٹ کیوں ہے؟..
(نوٹ: یہ کہانی بالکل غیر سیاسی ہے اور کسی بھی قسم کی مماثلت اتفاقیہ ہو گی اور اس میں مصنف کا کوئی قصور نہیں ہو گا۔۔ شکریہ)