سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر، نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ آزاد کشمیر پاکستان اور دنیا بھر میں، جہاں جہاں کشمیری مقیم ہیں بڑے جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکمرانوں کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے۔
پوری پاکستانی قوم میں جوش ولولہ بھرنے کے لیے ٹیلی ویژن ،ریڈیو اور سوشل میڈیا پر بھرپور انداز سے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کا ساتھ نبھانے کے لیے اشتہارات ،پبلک سروس میسجز اور گیت سنائے جاتے ہیں اور شاعر، خوبصورت شاعری کر کے نوجوانوں کا لہو گرماتے ہیں اور موسیقار ان کی شاعری پر خوبصورت دھنیں ترتیب دے کر کشمیر کی تحریک آزادی میں حصہ بقدر جسہ ڈالتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ دنیا میں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی
( یہ بیانیہ تو مسلمانوں کا ہی ہے کہ کافروں کو جنت نہیں ملے گی حالانکہ ہندو مت میں تو ہے کہ جو اچھا کام کرے گا وہ سورگ میں جائے گا اور جو برا کام کرے گا وہ نرخ میں) ایک اور گیت
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن
ان سب مختلف کوششوں کے باوجود ابھی تک کشمیر کی آزادی دور دور تک دکھائی نہیں دیتی لیکن میرے کشمیری پیارے بہن بھائیو ہم بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں گے کشمیر کو آزاد کرانے میں اب کروڑوں ٹیلیفونوں کی رنگ ٹون میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پیغامات سنائے جا رہے ہیں۔
ہر بچہ بوڑھا ،مرد عورت جاہل پڑھا لکھا
ہر شخص رنگ ٹون کے ذریعے جان چکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مسلح افواج اور مودی کی حکومت بہت مظالم ڈھا رہی ہے
لیکن ہم بھی یہاں ان مظالم کا جواب دینے کے لیے شہر شہر میں سیمینار، ریلیاں منعقد کر رہے ہیں اور بھارت کو ڈنکے کی چوٹ پر یہ احساس دلا رہے ہیں کہ ہم ہر حال میں کشمیر تم سے لیں گے
جہاں تک میرا تعلق ہے تومیں نے جن نوجوانوں، بچوں ،بچیوں سے کشمیر کے بارے میں گفتگو کی تو ان کی دلچسپی کا جو محور تھا وہ یہ تھا کہ انہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اس سے پہلے میں آپ کو بتاؤں کہ جب میں پرائمری سکول میں پڑھتا تھا تو اسمبلی میں ایک دن اعلان ہوا کہ پرنسپل صاحب کے والد رضا الہی سے خالق حقیقی کو جا ملے ہیں اس لیے آج سکول میں چھٹی ہوگی
تو ہم سب بچے خوشی سے نعرے مارتے ہوئے گھروں کو بھاگے تھے
پاکستانی قوم اور عوام کی بھی مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام سے اتنی ہی دلچسپی ہے کہ انہیں پانچ فروری کو مزہ کرنے اور آزادی کی تحریک میں حصہ ڈالنے کے لیے ایک اور چھٹی مل جاتی ہے ۔
پاکستانی حکمران ،جو کشمیر کے حق میں بہ امر مجبوری بیانات دیتے ہیں اس کی وضاحت میں ایک مثال سے کر دوں
ہمارے بچپن میں چوکیدار ہمارے محلے کی گلیوں میں چکر لگاتا تھا ۔
ایک بڑا سا ڈنڈا لے کے زمین پہ مارتا چلا جاتا اور ساتھ ہی وسل بجاتا تھا اور سوتے ہوئوں کو جگاتے اور جاتے جاتے یہ کہتا جاتا تھا کہ جاگتے رہنا
جاگتے رہنا
اب آپ اسے یوں کہ لیں کہ
جاگتے رہنا
ساڈے تے نہ رہنا
باقی آپ خود سمجھدار ہیں اب اس سے آگے میں کیا کہوں
لیکن میں پھر بھی کہوں گا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے
اور لے کے رہیں گے کشمیر
کشمیر بن کے رہے گا پاکستان