اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز) پاکستان میں ایک اور تہلکہ خیز انکشاف سامنے آیا ہے، جس کے مطابق سابق حکومتوں نے ملکی وسائل کو غیر قانونی طور پر تقسیم کرکے قومی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ رپورٹ کے مطابق، 2.5 لاکھ ایکڑ قیمتی اراضی غیر شفاف طریقے سے مخصوص افراد کو دی گئی، جس کے باعث قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔
پاکستان میں سابقہ دور حکومتوں میں نمک کی کان کنی کیلئے56 کمپنیوں کو لائسنس جاری کیے گئے، جن کے لیے مجموعی طور پر ڈھائی لاکھ ایکڑ اراضی مختص کی گئی۔ خاص طور پر بزدار حکومت کے دوران، صرف چار کمپنیوں کو بیس ہزار ایکڑ سے زائد زمین الاٹ کی گئی۔ اس حوالے سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ایک درخواست بھیجی گئی ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان غیر قانونی الاٹمنٹس کی مکمل تحقیقات کی جائیں اور ان افراد کو بے نقاب کیا جائے جنہوں نے قومی سرمایہ مخصوص شخصیات کو نوازنے کے لیے استعمال کیا۔
بڑے حکومتی افسران اور بااثر شخصیات ملوث
ذرائع کے مطابق، اس غیر قانونی تقسیم میں بعض بڑے حکومتی افسران اور بااثر شخصیات شامل تھیں، جنہوں نے اپنے قریبی افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے قواعد و ضوابط کو نظر انداز کیا۔ اطلاعات کے مطابق، سابق حکومت کے دوران مخصوص کمپنیوں کو ہزاروں ایکڑ اراضی انتہائی کم قیمت پر دی گئی، جس سے نہ صرف قومی خزانے کو نقصان پہنچا بلکہ ملکی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی ہو گئیں۔
درخواست آرمی چیف کو ارسال
اس سنگین معاملے پر براہ راست آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو درخواست دی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ان غیر قانونی تقسیموں کی مکمل تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ زمین مارکیٹ ریٹ کے مطابق نیلام کی جاتی، تو پاکستان کی معیشت کو بڑا فائدہ ہو سکتا تھا اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے خطیر رقم حاصل کی جا سکتی تھی۔
عوامی غم و غصہ اور ممکنہ کارروائی
اس انکشاف کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔ عوامی دباؤ کے پیش نظر، امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حکومت اور عسکری قیادت اس معاملے میں سنجیدہ اقدامات کرے گی تاکہ ملک کے وسائل کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
مزید پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ، جیلوں میں ہلاک قیدیوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹس طلب
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان وسائل کو منصفانہ اور شفاف بنیادوں پر استعمال کیا جاتا تو ملکی معیشت کو استحکام اور ترقی مل سکتی تھی۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا حکومت اور متعلقہ ادارے اس معاملے پر سنجیدہ کارروائی کرتے ہیں یا یہ معاملہ بھی دیگر اہم قومی مسائل کی طرح فائلوں میں دب کر رہ جائے گا۔