محترمہ شیرازی صاحبہ!
آج صحافت اور سیاست کے میدان میں جو رویے اپنائے جا رہے ہیں، وہ سوالات اور تشویش کو جنم دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے کے ایک ڈائریکٹر کا حالیہ بیان، جس میں انہوں نے کہا کہ “اگر میرے ہاتھ شہباز گل لگے تو میں اسے بندہ بنا دوں گا”، قابل غور ہے۔ ایسے بیانات صرف شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا مظہر ہیں، لیکن انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ جب وہ ریٹائر ہوں گے تو کیا پاکستان میں رہ سکیں گے یا انہیں باہر جانا پڑے گا؟ اور اگر بیرونِ ملک گئے تو ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ امریکہ میں ایک شہری کو دھمکی دینے کے حوالے سے کیس کی بات ہو رہی ہے۔
یہ رویے نہ صرف اداروں کے وقار کو مجروح کرتے ہیں بلکہ عوام میں عدم اعتماد بھی پیدا کرتے ہیں۔ اداروں کے افسران کو اپنے الفاظ اور عمل میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کیونکہ یہ رویے آنے والے کل میں ان کے لیے ہی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں
محترمہ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گی۔ میں یہ خط آپ کو ایک انتہائی اہم اور حساس موضوع پر توجہ دلانے کے لیے لکھ رہا ہوں۔ اج کے پروگرام میں یہ تاثر دیا گیا کہ صدر زرداری پیکا کے اس ایکٹ کو منظور نہیں کریں گے شاید یہ دوستوں کو غلط فہمی ہے
وہ تو تین مہینہ انتظار بھی نہیں کریں گے
یہ بات ناقابلِ انکار ہے کہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے، جس کا مقصد عوام کی آواز بننا اور سچائی کو دنیا کے سامنے لانا ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ آج کے دور میں صحافت پر دباؤ، دھمکیوں اور مفادات کا سایہ گہرا ہو چکا ہے، خاص طور پر سندھ میں۔
آپ کو ایک واقعہ یاد دلاتا ہوں، جب بلاول بھٹو نے ایک ٹرین مارچ کیا تھا۔ اس مارچ کے شرکاء سے وعدہ کیا گیا کہ انہیں دو ہزار روپے دیے جائیں گے، مگر بعد میں وہ احتجاج کرتے نظر آئے کہ انہیں صرف دو سو روپے ملے۔ ایک بہادر صحافی نے اس حقیقت کو عوام کے سامنے پیش کیا، لیکن اگلے دن اس کی لاش چارپائی پر پڑی ملی۔ کیا یہ صحافت ہے؟ کیا یہ وہ انصاف ہے جس کے خواب ہم نے دیکھے تھے؟
محترمہ، سندھ میں صحافیوں کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ وہ جو سچائی کی تلاش میں نکلتے ہیں، ظلم کا نشانہ بنائے جاتے ہیں۔ چند لوگ، جو چند سکوں کے عوض بک جاتے ہیں، انہیں صحافت کے مقدس نام سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ صحافی وہ ہوتا ہے جو مزدور کی طرح محنت کرتا ہے، سچائی کے لیے جیتا اور مرتا ہے۔میں اب امید کرتا ہوں افضل بٹ سے اور سرائکی وسیب کی پرچارک ڈاکٹر سعدیہ کمال سے اور پاکستان بھر کے صحافیوں سے کہ اس ایکٹ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں
آج، ہمارے ملک کی سیاست میں ذاتی تشہیر کا جنون اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ عوامی خدمت پسِ پشت چلی گئی ہے۔ آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ پٹرول پمپوں کے باتھ رومز تک پر سیاسی رہنماؤں کی تصاویر لگائی جا رہی ہیں۔ اٹے کے تھیلوں پر تصویریں اور ذاتی ناموں کی تشہیر، کیا یہ عوامی خدمت کا معیار ہے؟ کیا اچھے کام اپنی تشہیر کے محتاج ہوتے ہیں؟
پیپلز پارٹی پسِ پردہ رہ کر اپنے جرائم نون لیگ کے کھاتے میں ڈال رہی ہے۔ لیکن ہمیں ان حقائق کو چھپانے نہیں دینا چاہیے۔ صحافیوں کی جانوں کو تحفظ فراہم کرنا اور انہیں آزادی سے کام کرنے دینا ہمارا قومی فریضہ ہے۔
محترمہ شیرازی صاحبہ، میری درخواست ہے کہ آپ اس حساس موضوع پر اپنی آواز بلند کریں اور ان مظلوم صحافیوں کی نمائندگی کریں جن کی آواز دبائی جا رہی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی صحافت کو آزاد اور مظلوموں کا سہارا بنائیں۔
ہمیں ان مسائل پر بات کرتے ہوئے ایک متوازن اور حقیقت پر مبنی بیانیہ اپنانا ہوگا۔ عوام اور حکومت کے درمیان فاصلے کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں اور ہر قسم کے متنازع بیانات یا اقدامات سے گریز کیا جائے۔ ایف آئی اے جیسے اہم ادارے کے افسران کو اپنی حدود میں رہتے ہوئے قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا چاہیے، نہ کہ ذاتی انتقام یا سیاسی وابستگی کا مظاہرہ۔
نصاب کے معاملے پر بھی نظر ڈالنا ضروری ہے۔ جو خواتین حقیقی جدوجہد کی علامت ہیں، جیسے ڈاکٹر یاسمین راشد، عالیہ حمزہ، صنم جاوید، اور ریحانہ ڈار، وہ ہماری کتابوں میں جگہ کیوں نہیں پاتیں؟ یہ وہ خواتین ہیں جنہوں نے نہ صرف عوامی خدمت کے لیے قربانیاں دیں بلکہ اپنے اصولوں پر ڈٹی رہیں، جیل کی سختیاں برداشت کیں اور کبھی اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹیں۔
اس کے برعکس، وہ شخصیات جو ذاتی مفادات کے تحت ملک چھوڑ کر گئیں یا کنٹریکٹ کے تحت کسی اور ملک میں چلی گئیں، انہیں نصاب میں شامل کرنا نوجوان نسل کے ساتھ ناانصافی ہے۔ کیا یہ وہی لوگ ہیں جنہیں ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لیے مثال بنانا چاہتے ہیں؟
ہمیں ان تمام پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور ایک ایسا نظام تشکیل دینا ہوگا جو انصاف، حقائق، اور میرٹ پر مبنی ہو۔ ادارے، حکومت، اور صحافی سب مل کر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں، بشرطیکہ ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر اجتماعی بھلائی کو ترجیح دی جائے۔اپ کے پروگرام میں شرکت کر کے مجھے بڑی خوشی ہوئی۔