یقیناً! جموں و کشمیر اخبار کے قیام اور اس کی کامیابی کی کہانی انہی لوگوں کی جدوجہد اور قربانیوں سے عبارت ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں سچائی اور انصاف کے پیغام کو عام کرنے کے لیے وقف کیں۔ یہ اخبار نہ صرف ایک پلیٹ فارم ہے بلکہ ایک تحریک بھی ہے جو کشمیر کی آزادی، کشمیری عوام کے حقوق، اور صحافت کے اعلیٰ معیاروں کی ترجمانی کرتا ہے۔ اسی اخبار نے مجھے بحیثیت سیاسی لیڈر نہیں بلکہ کالم نویس کی حیثیت سے کشمیری کمیونٹی میں زندہ رکھا۔ مجھے اس وقت بڑی خوشی محسوس ہوئی جب تک یہ تقریب میں مجھے معزز کشمیری نے یہ کہہ کر میرا دل راضی کر دیا کہ میں آپ کے کالم پڑھتا ہوں۔
ایک سبق وزیراعظم لوگوں کو میرے کالم کے حوالے سے بتا رہے تھے کہ یہ ہزارہ کے رہنے والے ہیں پھر گجرانوالہ چلے گئے، پھر جدہ چلے گئے۔ یہ سب کچھ میں نے تو انہیں نہیں بتایا تھا۔ یہ ان کا اظہار محبت جموں کشمیر اخبار میں میرا چھپنا میرا تعارف بن گیا۔کشمیریوں کا یہ وصف ہے کہ یہ لوگ پردیس میں رہتے ہیں، چھ دن سخت محنت کرتے ہیں اور ساتویں دن اپنی دعوت آپ کرتے ہیں۔ ہوٹلوں میں بیٹھ کر پارٹیاں کرنا ان لوگوں پر ختم ہے۔ کشمیر کے اوورسیز پروموٹرز نے پاکستان کا نام اونچا کیا اور یہ کمال کے لوگ ہیں جہاں بھی رہتے ہیں کمال کرتے ہیں۔ جدہ جیسا اہم شہر ان کی محنت کا گواہ ہے اور ریاض میں سعودی عرب کے کونے کونے میں کشمیریوں نے ایمانداری سے وطن پاکستان اور کشمیر کی خدمت کی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر کشمیریوں نے وفا کی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ان کی وفا کو کسی جبر نے رخ موڑ دیا۔
جب 19 سال پہلے جموں و کشمیر اخبار کا آغاز ہوا تو حالات بالکل مختلف تھے۔ صحافت کرنا ایک مشکل اور خطرناک کام تھا۔ آزاد صحافت کے دعوے بہت تھے، لیکن عمل میں پابندیاں، خطرات، اور دھمکیاں ہمیشہ موجود رہیں۔ وہ لوگ جو اس وقت اس کاروان کا حصہ تھے، ان کا ذکر کرنا اور ان کی خدمات کو یاد رکھنا ضروری ہے۔ عامر محبوب، امتیاز بٹ، جاوید ہاشمی، خالد گردیزی، شہزاد راٹھور اور ان کے ساتھی یاد آتے ہیں۔
میں جن لکھاریوں کو دل میں رکھتا ہوں ان میں بشیر جعفری صاحب، امتیاز مغل صاحب، امتیاز بٹ صاحب ہمیشہ یاد رہیں گے جو اس دنیا سے چلے گئے۔ اللہ ان کی قبروں کو منور کرے اور جو زندہ ہیں انہیں تادیر زندہ رکھے۔ ان 19 سالوں میں جموں کشمیر کی مجلس عملہ نے کوئی چھوٹی موٹی غلطیاں بھی کی ہوں گی، جن میں سے مجھے بہترین کالم نگار کی حیثیت سے ایوارڈ بھی دیا گیا۔ عامر محبوب کا کہنا ہے کہ ہم جس کو بھی بیسٹ کالمسٹ کا اوارڈ دیتے ہیں وہ اگلے سال موجود نہیں ہوتا لیکن انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ آپ کا دوسرا ایوارڈ بھی میری صحت پر کوئی اثر نہیں ڈالے گا، لہذا فیصلہ کر ہی ڈالیے۔
عامر محبوب اور ان کے ساتھیوں نے جب اس سفر کا آغاز کیا، تو انہیں قدم قدم پر چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ وسائل کی کمی، حکومتی دباؤ، اور آزادی اظہارِ رائے کی محدودیت جیسے مسائل ہمیشہ درپیش رہے۔ ان سب کے باوجود، جموں و کشمیر اخبار کا مقصد واضح تھا: کشمیری عوام کی آواز کو دنیا تک پہنچانا اور ان کے حقوق کے لیے مضبوطی سے کھڑا رہنا۔
جموں و کشمیر اخبار کے بانیوں کا ہمیشہ یہ ماننا تھا کہ صحافت محض ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔ یہ وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے مظلوم کی آواز بلند کی جا سکتی ہے، اور ظلم کے خلاف جہاد کیا جا سکتا ہے۔ قرآن پاک کی اس آیت نے ہمیشہ اس مشن کو تقویت دی:
وَلاَ تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلاً عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ
(اور یہ نہ سمجھو کہ اللہ ظالموں کے اعمال سے بے خبر ہے۔)
یہی ایمان تھا جس نے اخبار کے ہر کارکن کو ہر قسم کے خطرات کے باوجود اپنے مشن پر قائم رکھا۔
آج جب ہم جموں و کشمیر اخبار کے 19 سال مکمل ہونے کی خوشی منا رہے ہیں، تو ہمیں ان تمام ساتھیوں کو بھی یاد کرنا چاہیے جنہوں نے اس سفر میں اپنی خدمات پیش کیں۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنی راتوں کی نیند قربان کی، اپنے قلم کو حق و انصاف کے لیے وقف کیا، اور کبھی سچائی سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان میں سے کچھ آج بھی ہمارے ساتھ ہیں، جبکہ کچھ وقت کے ساتھ پیچھے رہ گئے، لیکن ان کا کردار اور ان کی قربانیاں ہمیشہ یاد رہیں گی۔
یہ ان ہی لوگوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج جموں و کشمیر اخبار نہ صرف کشمیری عوام بلکہ دنیا بھر میں مظلوموں کی آواز بنا ہوا ہے۔ کشمیری عوام کی جدوجہد ہمیشہ سے ایک مثال رہی ہے۔ یہ قوم وہ ہے جو سخت ترین حالات میں بھی اپنے حق کے لیے لڑتی رہی ہے۔ ان کی قربانیاں اور استقامت ہماری نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
جب میں کشمیریوں کی بات کرتا ہوں، تو میری نظر میں وہ محنتی لوگ آتے ہیں جو نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنی پوری برادری کے لیے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ جب میں 1977 میں جدہ گیا، تو بے شمار کشمیریوں کو مختلف کمپنیوں میں دیکھ کر یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ قوم ایمانداری اور سخت محنت کی علامت ہے۔ ہاکٹیف جیسی کمپنیوں میں ہزاروں کشمیری اپنی محنت کے ذریعے اپنی برادری کو سہارا دے رہے تھے۔ یہ وہ قوم ہے جو اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو کبھی بھولتی نہیں اور ہمیشہ انہیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ کشمیری اوورسیز پروموٹرز نے نہ صرف کشمیر کی خدمت کی بلکہ پاکستان کی بھی خدمت کی۔ آج جو ڈنکی لگانے جاتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ایک بھی کشمیری پروموٹرز نے یہ برا کام نہیں کیا۔
آج کے دور میں، جہاں سچائی اور حقائق کو دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، صحافت کی ذمہ داری پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ جموں و کشمیر اخبار نے ان تمام سالوں میں سچائی کے اصول کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس کا علم بلند رکھا۔
عامر محبوب ،شہزاد راٹھور عرفان کھٹانہ ،منیر زاہد اور ان کے ساتھیوں کی قیادت میں، یہ اخبار ایک مشن کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔ یہ صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک تحریک ہے، ایک عزم ہے کہ ہم نہ جھکیں گے اور نہ بکیں گے۔
جموں و کشمیر اخبار کی یہ سالگرہ صرف خوشی کا موقع نہیں بلکہ یہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی یاد بھی دلاتی ہے۔ ہم سب کو مل کر اس مشن کو آگے بڑھانا ہے، اپنی نسلوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ سچائی کے راستے پر چلنا ہی اصل کامیابی ہے۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمت دے کہ ہم مظلوموں کے لیے کھڑے رہیں، ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کریں، اور اس عہد پر قائم رہیں کہ ایک دن حق ضرور غالب آئے گا۔ جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے:
إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
(بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔)
اس بار پانچ فروری کو ہم آپ کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں گے اور اٹھ فروری کو آپ نے کام کرنا ہے۔
یہ سالگرہ ہمیں ماضی کی یاد دلاتی ہے، حال کی کامیابیوں پر فخر کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے، اور مستقبل کے لیے نئے عزم کی بنیاد ڈالتی ہے۔ جموں و کشمیر اخبار، عامر محبوب، اور ان کے ساتھیوں کی خدمات کو سلام، اور دعا ہے کہ یہ مشن ہمیشہ جاری رہے۔باقی میری ایک درخواست ہے کہ جو لوگو اج سے 10، 15 سال پہلے غبار نے لگایا تھا وہ ہٹا دیں کیونکہ کچھ لوگوں نے یہ کہا ہے کہ لوگو میں اپ نے اپنے بیٹے کی تصویر کیوں لگا رکھی ہے؟