جمعه,  10 جنوری 2025ء
کیا ہم اولڈ ہائوسز میں رہ رہے ہیں ؟

زندگی کے تجربات وہ خزانہ ہیں جو نسلوں کو منتقل ہوتے ہیں، مگر آج کے زمانے میں یہ خزانہ اکثر نظر انداز ہو جاتا ہے۔ ہم بڑے بوڑھوں کے قریب بیٹھنے اور ان کی باتیں سننے کی نعمت کو کھو رہے ہیں۔ زندگی کے گہرے سبق، قیمتی مشورے، اور ماضی کی یادیں، جو ان کے پاس ہیں، ہمیں اس طرح سے کہیں اور نہیں مل سکتیں۔ الطاف حسن قریشی جیسے لوگ ہماری تہذیب کے چراغ ہیں۔ اردو ڈائجسٹ کے ذریعے ان کی تحریریں برسوں دلوں کو گرما چکی ہیں۔ جب حج کے دوران ان کی میزبانی کا موقع ملا، تو ان کی شخصیت اور خیالات سے قریب ہونے کا شرف نصیب ہوا۔ اس وقت کی یادیں آج بھی دل کو سکون دیتی ہیں۔ ان کی خدمت کرنے اور پاکستانی کمیونٹی کے لیے ایک بڑی تقریب منعقد کرنے کا موقع ملا، جہاں وہ مہمان خصوصی تھے۔ ان کا اندازِ گفتگو اور خیالات ہمیشہ دل کو چھوتے ہیں۔ ان کے بیٹے کامران بھی دوستوں میں شامل ہیں اور ان کی باتیں ہنسی کے رنگ بکھیر دیتی ہیں۔ یہ زندگی کے ان لمحات میں سے ہیں جو ہمیں احساس دلاتے ہیں کہ بڑوں کی محفل کا اپنا مزہ ہوتا ہے۔ آج جب ہر کوئی موبائل کی دنیا میں کھویا ہوا ہے، بڑے بوڑھے اپنے ماضی کی یادیں سنانے کو ترس جاتے ہیں۔ ان کی باتیں، ان کے تجربات، اور ان کی محبت، سب کچھ ایک خزانہ ہے۔ ہمیں ان کے پاس بیٹھنا چاہیے، ان کی باتیں سننی چاہئیں، اور ان سے زندگی کے سبق حاصل کرنے چاہیے۔ یہی وہ باتیں ہیں جو ہمیں اپنے بزرگوں سے سیکھنی چاہئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول یاد آتا ہے کہ ایک عمر کے بعد انسان ماضی کی باتیں کرنے لگتا ہے۔ ان باتوں میں ایک کہانی ہوتی ہے، ایک سبق ہوتا ہے، اور زندگی کے سفر کا خلاصہ ہوتا ہے۔ یہ ماضی کی کہانیاں ہمارے لیے مستقبل کے راستے متعین کر سکتی ہیں۔ ہماری زندگی میں موبائل نے جہاں آسانیاں پیدا کی ہیں، وہاں رشتوں اور تعلقات میں فاصلے بھی بڑھا دیے ہیں۔ آج کے گھروں کو دیکھیں تو سب اپنے کمروں میں موبائل کے ساتھ مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ موبائل ہی ان کا دادا، نانی، اور ساتھی بن چکا ہے۔ والدین جنہیں کبھی اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کی تمنا ہوتی تھی، آج ان کے آرام کی دعائیں کرتے ہیں۔ بچے تھکے ہارے کام سے آتے ہیں اور والدین انہیں سکون سے سونے کا مشورہ دیتے ہیں۔ پہلے زمانے میں خاندان مل بیٹھ کر باتیں کرتے تھے۔ بزرگ اپنی زندگی کے قصے سناتے تھے، اور نوجوان ان سے سیکھتے تھے۔ آج وہ روایت کھو گئی ہے۔ گھروں میں وہ رونقیں، وہ محبتیں، اور وہ گپ شپ ختم ہو چکی ہے۔ ہم سب اولڈ ہاؤسز میں رہ رہے ہیں، مگر یہ اولڈ ہاؤسز ہمارے اپنے ہی گھر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو سکھائیں کہ بزرگوں کی قدر کریں۔ ان کی باتیں سنیں اور ان سے سبق لیں۔ ان کے تجربات کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ وہ وقت جو ہم موبائل پر ضائع کرتے ہیں، اگر اپنے بزرگوں کے ساتھ گزاریں تو یقین کریں کہ ہم ایک بہتر انسان بن سکتے ہیں۔ یہ وقت، یہ لمحے، اور یہ تعلقات سب سے قیمتی ہیں۔ بڑے بوڑھے وہ خزانہ ہیں جن کی باتوں میں ہماری تاریخ، ثقافت، اور اقدار چھپی ہوتی ہیں۔ ان کے پاس بیٹھنا، ان کے قصے سننا، اور ان کی دعائیں لینا، یہی وہ اصل سرمایہ ہے جو ہمیں آنے والی نسلوں کو منتقل کرنا ہے۔ اس لیے، اپنی زندگی میں وقت نکالیں، اپنے بزرگوں کے قریب جائیں، اور ان کی باتوں سے اپنی زندگی کو روشنی بخشیں۔ یہی حقیقی خوشی ہے، یہی اصل کامیابی ہے۔ مجھے میرے جدہ کے دوست ملک سرفراز جو فردوس ہوٹل کے مالک ہیں ان کی یہ بات مجھے بہت اچھی لگی ہو رات کو سارے بھائی جو چار پانچ جن کے پاس ہوٹلوں کی ذمہ داری تھی سارے آ کے اپنے والد کے کمرے میں آجاتے تھے اور وہاں بیٹھ کے سارے دن کی گپیں لگاتے تھے والد سے مشورہ لیا کرتے تھے اور جب والد صاحب تقریبا سونے کے قریب ہوتے تھے وہ دباتے رہتے تھے ان کی ٹانگیں اور بازو ،وہ پھر اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے تھے تو میں اج اندازہ لگا رہا ہوں یہ کوئی 14، 15 برس پہلے کی بات ہے کہ جب میں نے ملک سرفراز کے گھر کا یہ ماحول دیکھا تو اسے ایک عام سا محسوس کیا لیکن اج میں محسوس کرتا ہوں کہ کاش میرے چار بچے جو دنیا کے مختلف شہروں میں رہ رہے ہیں کوئی جدہ کوئی دبئی کوئی گجرانوالہ کوئی ادھر، تو سارے اکٹھے ہوں سارے مل بیٹھے ہیں اس پیسے نے ہمیں کسی جگہ کا نہیں چھوڑا، کامران عمان کے ایک صاحب کا ذکر بھی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ وہ زندگی بھر بیرون ملک رہے، مگر ان کے دل میں اپنے وطن اور اپنی تہذیب کی محبت ہمیشہ زندہ رہی۔ جب وہ پاکستان آتے ہیں تو اپنے تجربات اور زندگی کے واقعات کو شیئر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان کی باتوں میں زندگی کے اتار چڑھاؤ، محنت کا درس، اور دنیا کے مختلف پہلوؤں کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ جب وہ بولتے ہیں تو ان کی گفتگو میں تجربے کی گہرائی اور مشاہدے کی سچائی محسوس ہوتی ہے۔ ان کی باتوں سے یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ انسان چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو، اپنی شناخت اور اقدار کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ان کا یہ جذبہ دیکھ کر لگتا ہے کہ ایسے افراد کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جائے جہاں وہ اپنی یادوں اور باتوں کو بانٹ سکیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمان جیسے مقامات پر، یا پاکستان میں بھی، ایسے کلب بننے چاہییں جہاں سینئر شہری اکٹھے ہو سکیں، اپنی زندگی کے قصے سنائیں، اور نوجوان ان سے سیکھیں۔ یہ نہ صرف ایک صحت مند روایت ہوگی بلکہ نسلوں کے درمیان تعلقات کو بھی مضبوط کرے گی۔ ان کی باتوں کے بیچ میں چھپے ہوئے تجربے اور علم کو نظر انداز کرنا دراصل اپنے مستقبل کو تاریک کرنے کے مترادف ہے۔ تہمینہ دورانی جو کبھی غلام مصطفی گھر کی بیوی ہوتی تھی اور بعد میں موجودہ وزیراعظم کی بیوی بنی انہوں نے ایک جگہ انٹرویو میں یہ کہا تھا کہ گھر چھوٹے ہونے چاہیے سب سے بڑا گھر دس مرلے کا ہی کافی ہے اب میرا خیال ہے وہ صحیح کہہ رہی ہیں ہمیں اپنی زندگی میں ایسے لوگوں کے قریب جانا چاہیے، ان سے سبق لینا چاہیے، اور ان کی باتوں سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ یہ خزانے ہماری تاریخ اور تہذیب کا حصہ ہیں، اور ان سے دور رہنا ہماری اجتماعی نقصان ہوگا۔ افسوس کے میں خود ایک اولڈ سیٹیزن ہوں اور میں اپنے حقوق کے لیے لکھ رہا ہوں ۔

مزید خبریں