جمعه,  10 جنوری 2025ء
زمانہ بدل گیا ہے!

زندگی کتنی مختلف ہو گئی ہے، زمانہ کتنا بدل گیا ہے۔۔ پہلے زمانے کی باتیں تو اب رہی نہیں۔۔ جب ماں باپ کہتے کہ جاو دکان سے دو کلو مٹن لے آو، سبزی لے آو۔۔ دو چکن کٹوا لانا۔۔ دودھ تین کلو اور ایک کلو دہی لیتے آنا۔۔ بچوں کو معلوم ہوتا کہ کسی بھی دکان سے لیں گے چیز خالص ہی ملے گی۔۔
اب تو اللہ معافی دے، دودھ لینے کے لیے جائیں تو دعا یہی ہوتی ہے کہ یا اللہ دودھ ہی ملے، کیمیکل ملا پانی نہ تھما دے دودھ والا۔۔ ہماری قوم میں بہت ہی زرخیز ذہن پائے جاتے ہیں، یہاں قوم کی قابلیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس قوم کے لوگ لکڑی کی ریڑھی میں اعتماد کے ساتھ آگ لگا کر گھوم رہے ہوتے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہمارے لوگوں کا دنیا میں نام ہوتا، اب بھی ہوتا ہے مگر فرق یہ ہے کہ سافٹ وئیر کی دنیا میں ہمارے لوگوں کے نام نہیں ہوتے مگر جتنے بھی کمپیوٹر وائرس ہوتے ہیں وہ ہمارے نوجوانوں کے بنائے ہوتے ہیں۔۔
یہاں قوم اتنی قابل ہے کہ یہ دودھ کی جگہ زہر فروخت کرتے ہیں اور دکان پر بورڈ بسم اللہ ڈیری یا مدینہ ڈیری۔۔ دودھ لینے والے کو نہیں معلوم کہ اس میں دودھ کتنا اور کیمیکل کتنا ہے؟۔ ایک شخص نے بتایا کہ ایک لیٹر خشک دودھ، سو لیٹر پانی اور کیمیکل کے ساتھ وہ آرام سے ایک سو لیٹر دودھ بنا لیتا ہے۔۔ اللہ کی شان ہے۔۔

یہاں آپ گاڑی کی مرمت کے لیے مکینک کے پاس جائیں تو آپ کو بتایا جاتا ہے کہ پلگ تبدیل ہوں گے، شاک ٹوٹ گیا ہے مرمت نہیں ہو سکتا، بیٹری ختم ہو گئی ہے۔۔ فرنٹ سسپینشن کی تمام چیزیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔۔ غرض یہ کہ شام میں آپ کو ایک لاکھ کا بل تھما دیا جاتا ہے مگر گارنٹی کوئی نہیں کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ ان کی جگہ نئی اشیا ہی ڈالی گئی ہیں۔۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ سے بل نئے پلگ کا لیا ہو، نئے شاکس بتائے ہوں مگر ان کو خود ہی مرمت کر کے دوبارہ ڈال دیا ہو۔۔

پلاٹ پر مکان بنانے کے لیے آپ کو ٹھیکیدار دو آپشن دے گا کہ آپ مکمل سامان اور لیبر کے ساتھ بھی بنوا سکتے ہیں اور میٹیریل خود لائیں اور لیبر ہماری۔۔ دونوں صورتوں میں اگر ٹھیکیدار چاہے تو کوئی بھی اس کو اچھی تعمیرات پر راضی نہیں کر سکتا۔۔۔ اس کو اگر میٹیریل نہیں لینے دیں گے تو وہ آپ کی خریدی ہوئی سیمنٹ کی بوریاں غائب کر جائے گا۔۔ اینیٹیں ضرورت سے زیادہ منگوائے گا اور وہ سامان وہ کسی ایسے ۔۔۔ میں پہنچا دے گا جہاں وہ میٹیریل سمیت کام کر رہا ہو گا۔۔

آپ ٹھیکے پہ بنا خوبصورت مکان دیکھ کر اس کا سودا خوشی خوشی کر لیں گے مگر جب کوئی پینٹنگ لگانے یا شیشہ دیوار میں لگانے کے لیے کیل ٹھوکنے لگیں گے تو یا تو کیل دیوار میں دھنس جائے گی یا پلستر کا بڑا حصہ آپ کے ہاتھ میں آ جائے گا۔

آپ سونے کی انگوٹھی، کوئی کنگن کسی دکان سے لیں تو وہ چالیس ہزار کی ہو گی۔۔ تھوڑی دیر بعد ہی دکان پر واپس کرنے جائیں تو اتنی کٹوتی سنار کرے گا کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔۔ جب وہ آپ کو انگوٹھی فروخت کریں گے تو اس پر لگے نگ بھی سونے کے بھاو خریدنے پڑیں گے مگر جب آپ فروخت کرنے جائیں توہ نگ کو الگ کریں گے اور پھر وزن کریں گے۔ پھر اس میں سے مزدوری اور کاٹ نکال کر ایک واجبی سی رقم ہاتھ میں تھما دیں گے۔
مٹن یا بیف لینے جائیں تو آپ کو یہ سو فیصد یقین نہیں ہو سکتا کہ مٹن واقعی بکرے یا دنبے کا گوشت ہے یا بیف گائے، بھینس کا ہی ہے۔۔۔ بڑے بڑے ریسٹورنٹ پر مٹن کے نام پر کتے پکڑے گئے ہیں، بیف نہاری گدھے کے گوشت کی بنی پکڑی گئی مگر تھوڑے سے جرمانے پر یہ لوگ پھر آزاد ہوتے ہیں اپنا دھندہ نئے سرے سے شروع کرنے کے لیے۔۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں سب سے زیادہ کرپشن کرنے والوں میں اینٹی کرپشن والے شامل ہوتے ہیں۔۔ نیب نے خود پلی بارگین کا پیارا سا قانون بنایا ہے کہ آپ آرام سے کرپشن کریں اور پکڑے جانے پر چالیس کروڑ کی حرام کی کمائی سے دس کروڑ روپے پلی بارگین میں ادا کریں اور پھر آپ دوبارہ معزز شہری بن کر کچھ بھی کرنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔

یہاں فوڈ اتھارٹی والوں کی روزانہ خبر آتی ہے کہ دس ہزار لیٹر کیمیکل ملا مضر صحت دودھ تلف کر دیا گیا مگر مجال ہے جو یہ کاروبار رک سکا ہو۔۔ وہ لوگ پھر سے نئے جذبے سے کاروبار شروع کر دیتے ہیں اور الحمد للہ اب ایک دکان کے بجائے ان کی شہر میں چار پانچ شاخیں یہ کام کر رہی ہیں۔۔ کوئی ہمیں یہ نہیں سمجھا پاتا کہ بیس روپے کی پیٹا بریڈ میں ہر طرح کی چٹنی ڈالنے کے بعد چکن بھی ڈالیں اور شوارما ایک سو روپے کا کیسے ہو سکتا ہے مگر لوگ بھی خریدیں گے اور فوڈ اتھارٹی والے بھی انہیں کچھ نہیں پوچھتے کہ گیس کا سلنڈر بھی ہے جگہ کا کرایہ بھی پھر کیسے یہ ایک سو روپے کا شوارما ہو سکتا ہے؟۔

ابھی کسی نے وڈیو بھیجی اس میں ایک قصاب نے بتایا کہ اس سے ایک پولیس والا مفت میں گوشت لینے آ جاتا تھا پھر میں نے محلے کے آوارہ کتے ذبح کرنے شروع کر دئیے اور حرام کھانے والوں کو یہ حرام گوشت مفت میں دینا شروع کر دیا۔۔ اب کوئی پوچھے کہ جناب اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آپ جو حرام گوشت کاٹ رہے ہیں وہ صرف حرام خور افسران کو ہی دے رہے ہیں، دوسرا یہ کہ کیا وہ گوشت کاٹنے کے لیے آلات وہی ہیں جو آپ حلال گوشت کے لیے استعمال کرتے ہیں یا مختلف ہوتے ہیں؟۔

ہم سب اپنے اپنے حصے کی چوری کرتے ہیں، کوئی ٹریفک لائٹ کی خلاف ورزی کر کے، کوئی بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلا کر، کوئی ملاوٹ کرتا ہے، کوئی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، کوئی رشوت لیتا ہے، کوئی قطار کی زحمت سے بچنے کے لیے سفارش کرواتا ہے۔۔ کوئی ناقص تعمیرات کرتا ہے، کوئی سکول، کالج کے نام پر تعلیم فروشی کرتا ہے، کوئی نجی ہسپتال بنا کر لوگوں کو لوٹنے کا کام کرتا ہے مگر ان سب کو شکایت ہے کہ حکمران کرپٹ ہیں۔۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شراب پینے کے بعد کھانا آنے پر پوچھے کہ گوشت حلال ہے؟۔
یہ تمام احباب جو لکڑی کی ریڑھی میں آگ جلا کر شہر میں گھومتے ہیں، وہ جو ٹیکس بچانے کے لیے اکاونٹنٹ کو لاکھوں روپے تنخواہ دیتے ہیں، وہ جو دودھ کی جگہ کیمیکل فروخت کرتے ہیں اگر سب دیانتداری کے ساتھ کام کرتے ہوئے اپنے دماغ تعمیری کام میں لگائیں تو ملک بھی ترقی کرے گا ورنہ حکمرانوں پر الزام لگانا جاری رکھیں۔۔

شہریاریاں ۔۔۔ شہریار خان
دس جنوری ۲۰۲۵

مزید خبریں