حافظ آباد (شوکت علی وٹو) پاکستان ریلوے کی زمینوں پر غیر قانونی اسٹالز لگوا کر کرایہ وصول کرنے کا اسکینڈل منظر عام پر آیا ہے، جس میں ریلوے افسران، اسٹیشن ماسٹر، اور پولیس کے اہلکار ملوث ہونے کا الزام ہے۔ یہ غیر قانونی کاروبار کئی سالوں سے جاری ہے، اور اس سے پاکستان ریلوے کو سالانہ لاکھوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق، حافظ آباد میں ریلوے لائن کی مشرقی سائیڈ پر غیر قانونی طور پر اسٹالز لگوائے گئے ہیں، جہاں پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص جگہوں پر بھی ان اسٹالز کو قائم کر دیا گیا ہے۔ ریلوے پھاٹک اور مشرقی حصے میں ہر ماہ تقریباً 5 لاکھ روپے کا کرایہ وصول کیا جا رہا ہے، جو کہ پاکستان ریلوے کے خزانے کی بجائے متعلقہ افسران، اسٹیشن ماسٹر اور ریلوے پولیس کی جیبوں میں جا رہا ہے۔
پچھلے سال ریلوے لائن کی مغربی سائیڈ کا ٹھیکہ سکھیکی منڈی میں ایک مقامی کمپنی کو دیا گیا تھا، لیکن مشرقی سائیڈ کا ٹھیکہ ابھی تک نہیں ہوا اور وہاں غیر قانونی اسٹالز کی بھرمار ہے۔ اس عمل کی پشت پناہی مبینہ طور پر ریلوے پولیس، اسٹیشن ماسٹر اور آئی او ڈبلیو (انسپکٹر آف ورک) کی جانب سے کی جا رہی ہے، جو اس کرپشن میں شریک ہیں۔
ماہانہ 5 لاکھ روپے کی آمدنی کا حساب کتاب لگایا جائے تو یہ رقم سالانہ تقریباً 60 لاکھ روپے بنتی ہے، جو پاکستان ریلوے کے بجائے کرپٹ افسران اور متعلقہ اہلکاروں کی جیبوں میں جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان ریلوے کے اعلیٰ حکام اس بڑے کرپشن اسکینڈل کے خلاف کیوں خاموش ہیں اور کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی؟
مزید پڑھیں: بلوں کی عدم ادائیگی، پاکستان ریلوے کی بجلی منقطع کرنے کا عمل شروع
مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ اس غیر قانونی کاروبار کے باعث نہ صرف پاکستان ریلوے کو مالی نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ عوامی جگہوں پر دکانداروں کی تعداد میں اضافے سے پیدل چلنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
اس کرپشن کے خلاف فوری کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان ریلوے کی زمینوں کی غیر قانونی استعمال کی روک تھام کی جا سکے اور خزانے میں پہنچنے والے لاکھوں روپے کی کرپشن کا خاتمہ ہو سکے۔