بدھ,  04 دسمبر 2024ء
سچ کہیں دور رہ گیا ہے

شہریاریاں ۔۔تحریر: شہریار خان

یہ غالباً بیس اگست 2014 کی دوپہر تھی، میری ڈیوٹی سرینا ہوٹل کے قریب ایمبیسی روڈ پر تھی۔۔ یہاں سے پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کاجو دھرنا کئی روز سے آبپارہ میں جاری تھاوہ پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے جانا تھا۔۔ میڈیا کے معمولات وہی تھے۔۔ یعنی اس ریلی کو شروع ہونے سے ختم ہونے تک دکھانا ہے۔
ہم لوگ صبح سے وہاں موجود تھے۔۔ میرے علاوہ میرے آفس کے دیگر رپورٹرز اور کیمرہ مین بھی تمام راستے پر ڈیوٹی پر موجود تھے۔۔ دیگر چینلز کے ساتھی بھی میرے ہمراہ وہیں موجود تھے۔ میں ان دنوں میں ایکسپریس نیوز چینل سے وابستہ تھا، مجھے ایکسپریس نیوز لاہور آفس سے فون آیا اور مجھ سے پوچھا گیا کہ یہاں فائرنگ ہوئی ہے؟۔ سنا ہے کہ تین پی ٹی آئی کارکن مارے گئے ہیں؟۔

میں نے انہیں بتایا کہ پولیس اور دیگر فورسز کے پاس کوئی بندوق نہیں ہے، وزارت داخلہ نے آرڈر کیا تھا کہ کسی کے ہاتھ میں اسلحہ نہیں ہو گا۔۔ اس لیے سب کے ہاتھ میں صرف ڈنڈے ہیں اور وہ بھی استعمال نہیں ہو رہے۔

بہرحال میں نے دیگر مقامات پر موجود اپنے دونوں ساتھیوں حیدر نسیم اور قمر المنور سے اس بابت دریافت کیا، دونوں نے یہی بات دہرائی کہ کوئی گولی نہیں چلی، بلکہ گولی چلانے کی کوئی صورت نہیں ہے، کسی کے ہاتھ میں اسلحہ نہیں ہے۔۔
میں نے یہی بات لاہور آفس تک پہنچا دی مگر یوں لگتا تھا کہ انہیں اس بات پر یقین نہیں آیا۔اتنے میں وہاں چار لڑکے کسی کو اٹھا کر لائے۔۔ وہ بے ہوش معلوم ہو رہا تھا۔۔ تمام کیمرہ مینوں نے دوڑ لگا دی اور اس کی فوٹیج بنانے لگے۔ میں نے فوراً انہیں ہٹایا اور اس بے ہوش لڑکے کو دیکھا، پھر میں نے ان چاروں سے پوچھاکہ کیا ہوا ہے اسے؟۔ انہوں نے فوراً کہا اسے گولی لگی ہے۔۔

میں نے کہا گولی لگی ہے تو خون کیوں نہیں نکل رہا۔۔ گولی ایسی کون سی جگہ لگی ہے جہاں خون تک نہیں نکلا؟۔۔ یہ پوچھنا تھا کہ ان چاروں کی سٹی گم ہو گئی۔۔ ان میں سے ایک بولا کہ آگے تین لاشیں نالے میں گری ہوئی ہیں۔۔ میں نے کہا کون سے نالے میں؟۔ وہ بولانادرا دفتر کے ساتھ۔۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے بیس سال میں یہاں کوئی نالہ نظر نہیں آیا۔۔ اس لیے کہ اس پوری سڑک پر کوئی نالہ ہے ہی نہیں، پھر یہ تماشا کیوں؟۔۔
انہوں نے اس لڑکے کو پھر اسی طرح اٹھایا اور وہاں سے آبپارہ کی طرف روانہ ہو گئے۔۔ آبپارہ کے شیل پمپ کے قریب اس وقت کنٹینر دکھائی دے رہا تھا جس پر بانی پی ٹی آئی عمران خان موجود تھے۔۔

تھوڑی دیر بعد مجھے قمر المنور کا فون آیا۔۔ بولا شہری بھائی یہ زیادتی ہے، ہم لوگ صبح سے یہاں ڈیوٹی کر رہے ہیں اور ایمانداری سے کام کر رہے ہیں اور ہمارے چینل کے ایک اینکر نے ابھی سکرین پر کہا کہ ہمارے رپورٹرز یہ خبر نہیں دے رہے مگر میں بتا رہا ہوں کہ پولیس کی فائرنگ سے تین پی ٹی آئی کارکنان شہید ہو گئے ہیں۔۔
میں نے فوراً اپنے بیورو چیف عامر الیاس رانا کو فون کیا۔۔ انہیں اس صورتحال سے آگاہ کیا۔۔ تھوڑی دیر کے بعد بیورو چیف نے بتایا کہ وہ یہ معاملہ چینل انتظامیہ کے نوٹس میں لے آئے ہیں اور اس حوالہ سے ایکشن لیا جائے گا۔

تھوڑی دیر بعد ایکشن ہو گیا اورفیک نیوز یعنی جھوٹی اور بے بنیاد خبر چینل پر آن ائیر کرنے کا قصور ثابت ہونے پر اینکر فواد چوہدری اور معید پیرزادہ کو آف ائیر کر دیا گیا۔اس پر فواد چوہدری نے ایک اور فیک نیوز دی کہ شہباز شریف کے کہنے پر ایکسپریس چینل کی انتظامیہ نے مجھے آف ائیر کر دیا ہے کیونکہ انہیں اشتہار دئیے جا رہے ہیں۔

فواد چوہدری کی اس ٹویٹ کو پی ٹی آئی فالورز نے حقائق جانے بغیر دھڑا دھڑ ری ٹویٹ کرنا شروع کر دیا۔۔ اس پر ایکسپریس نیوز انتظامیہ نے پہلی مرتبہ کسی کو ملازمت سے نکالنے کا اعلان خبر کی صورت میں جاری کیا، یہ خبر آج بھی روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس ٹریبیون کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
خیر اس فیک نیوز پر نکالے جانے پر فواد چوہدری اور معید پیرزادہ کو فوری طور پر اے آر وائی میں نوکری مل گئی۔۔ وہاں سے فواد چوہدری نے کچھ عرصہ بعد پی ٹی آئی میں چھلانگ لگا دی اور نہ صرف ایم این اے بنے بلکہ وزیر اطلاعات بھی بن گئے۔۔ وہاں انہوں نے فیک نیوز ختم کرنے کا نعرہ لگایا۔۔ ظاہر ہے ان سے زیادہ کون فیک نیوز کو جانتا تھا۔
اب میں آپ کو اس دھرنا سے بھی تھوڑا پیچھے لیے چلتا ہوں۔۔ جہاں پی ٹی آئی کا مینار پاکستان پہ جلسہ ہونا تھا۔۔ اس روز کہیں سے تمام چینلز کو ہدایات موصول ہوئیں۔۔ طے یہ پایا کہ یہ جلسہ شروع سے لے کر آخر تک دکھایا جائے گا۔ کسی چینل کو جلسہ کے علاوہ کچھ اور دکھانے کی اجازت نہیں تھی۔ جلسہ کو بسم اللہ سے لے کر صدق اللہ العظیم تک دکھایا گیا۔ ہر تقریر دکھائی گئی جو عموماًنہیں ہوتا اور صرف بڑے لیڈرز کی تقریر دکھائی جاتی ہے۔یہ بات ریکارڈ پر ہے اور کہیں سے بھی چیک کی جا سکتی ہے۔
مگر اس جلسے سے نئی روایات قائم ہوئی ہیں۔ یعنی تقریریں تو تقریریں یہاں تو عطا اللہ، ابرار الحق اور عمران اسماعیل کے گانے بھی مکمل دکھائے گئے اور ان گانوں پر تھرکنا بھی۔۔ ان گانوں کی کامیابیوں کا اثر یہ ہوا کہ ڈی جے بٹ کی مانگ بھی بڑھ گئی اور ناچ گانوں کی مخالف جماعتوں نے بھی گانے تیار کر لیے۔
ان دھرنوں اور جلسوں کے علاوہ جسے اس وقت کے ہدایتکاروں نے متعارف کروایا تھا وہ ففتھ جنریشن وار تھی۔ اس کے تحت جھوٹ بولنے کا فن کس طرح پھیلایا جانا ہے وہ بھی سکھایا گیا۔ یہ اور بات کہ ففتھ جنریشن وار کے جو سپاہی تیار ہوئے انہوں نے سکھانے والوں پر ہی بندوقیں تان لی ہیں۔
اب مثبت کوریج کا تقاضا جو 2018 میں کیا گیا تھا، اس پر تمام چینلز اسی طرح عمل پیرا ہیں مگر سوشل میڈیا کے ڈائنامکس مزید خوفناک ہو گئے ہیں۔ جھوٹ پھیلانا بہت آسان ہے مگر اسے جھٹلانا مشکل ہو گیا ہے۔ مین سٹریم میڈیا کا رپورٹر کوئی خبر دینے کے لیے محنت کرتا ہے مگر سوشل میڈیا کے سپاہی اندھا دھند فائرنگ کرتے ہیں اور کروڑوں اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔

باقی رہی سہی کسر ہمارے یوٹیوب والے دوست پوری کر دیتے ہیں جو ڈالر وصول کرنے کے لیے ایک لائن پر چلتے ہیں اور پھر پیچھے مڑ کے نہیں دیکھتے۔ ظاہر ہے رپورٹرز کی تنخواہیں تو کئی کئی سال بڑھنے کے بجائے کم ہوتی جاتی ہیں مگر یہ گھر بیٹھے بنے بنائے ٹرینڈ پر کام کرتے ہیں اور مہینے میں اتنا کماتے ہیں جتنا ایک صحافی سال میں بھی نہیں کما پاتا۔۔

سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل ان جھوٹ پر مبنی وڈیوز کو وائرل کرتے ہیں اور سچ ان سب کے درمیان کہیں دور رہ گیا ہے۔ اب کوئی بھی اٹھ کر کہہ سکتا ہے کہ حکومت نے فائرنگ کر دی اور درجنوں لوگ مر گئے ہیں۔۔ مگر اس کی حقیقت معلوم نہیںہو سکتی۔۔ وہاں موجود کئی رپورٹرز یہ کہہ رہے ہیں فائرنگ ہوئی مگرٹانگوں پر گولیاں ماری گئیں۔۔ کئی کہتے ہیں فائرنگ صرف ہوائی فائرنگ تھی جبکہ ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ ڈائریکٹ فائرنگ سے بہت سے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
سچ کا فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ جو بھی فائرنگ سے جان سے گیا ہو گا، ظاہر ہے ان کے جنازے بھی ہوئے ہوں گے، ان کے گھر بھی ہوں گے، ان کے دوست احباب بھی ہوں گے اور ان جنازوں کی تصاویر بھی بنی ہوں گی۔ ان کو سامنے لایا جائے، سچ سامنے آ جائے گا۔

دور کوئی بھی ہو، جماعت کوئی بھی ہو، تشدد اچھا نہیں ہوتا ۔۔ یہ کسی بھی جانب سے ہو اسے اچھا نہیں کہا جا سکتا مگر اسے ثابت کرنا لازم ہے۔ ویسے بھی جب اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان یہ کہیں کہ ہم نے سینے پر راونڈز کھائے ہیں، تو سچ کا فیصلہ کرنا مشکل ویسے بھی نہیں ہے۔

مزید خبریں