بدھ,  27 نومبر 2024ء
آئی جی پنجاب کا حجاب سے متعلق متنازعہ بیان سوشل میڈیا پر وائرل

لاہور (روشن پاکستان نیوز) سوشل میڈیا پر پنجاب کے آئی جی ڈاکٹر عثمان انور کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ ایک تقریب کے دوران حجاب کے بارے میں اپنا موقف بیان کر رہے ہیں۔ آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ اگر پنجاب میں لڑکیاں حجاب پہننا چاہیں تو یہ ان کی ذاتی چوائس ہوگی، یہ کوئی مجبوری نہیں ہونی چاہیے۔یہ بیان اسلامی روایات اور پردے کے حوالے سے موجود قوانین اور پیغامات کے برخلاف تصور کیا جا رہا ہے، خاص طور پر اسلام میں پردے کے حوالے سے واضح حکومتی پیغامات موجود ہے۔ آئی جی پنجاب کے اس بیان نے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، جس میں کچھ افراد نے ان کے بیان کی حمایت کی ہے، جب کہ دیگر نے اس کو اسلامی اقدار کے خلاف قرار دیا ہے۔حجاب، جو کہ اسلامی روایات میں ایک اہم جزو ہے، خواتین کے لیے پردہ کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں بہت سے مذہبی اسکالرز اور تنظیمیں اس بات پر زور دیتی ہیں کہ خواتین کے لیے حجاب ایک فرض ہے، نہ کہ صرف ایک اختیار۔اسلام میں واضح پیغامات دیے گئے ہیں، جن کے مطابق پردے کی اہمیت اور اس کے شرعی تقاضوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان کے مختلف حصوں میں اس طرح کے بیانات پر متنازعہ رائے پائی جاتی ہے۔ بعض حلقے اسے خواتین کے حقوق کے حوالے سے مثبت قدم مانتے ہیں، جب کہ دیگر کا خیال ہے کہ اسلامی تعلیمات اور قومی قوانین کے مطابق حجاب ایک فریضہ ہے اور اس پر کسی بھی قسم کی لاپرواہی یا سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔پاکستان کے موجودہ سماجی اور سیاسی منظرنامے میں اس مسئلے کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے، اور آئندہ کچھ دنوں میں اس حوالے سے مزید تبصرے اور بحث ہونے کا امکان ہے۔

فرانس: حجاب پر سخت پابندی

فرانس میں حجاب پر سخت پابندیاں عائد ہیں، خاص طور پر اسکولوں اور سرکاری اداروں میں۔ 2004 میں فرانس نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت اسکولوں اور کالجوں میں کسی بھی مذہبی علامات، جیسے حجاب، کو پہننے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ قانون فرانس میں لادینیت کی حمایت کے تحت بنایا گیا ہے، جس میں حکومت کا موقف ہے کہ ریاستی اداروں میں مذہبی علامتوں کا استعمال فرقہ واریت کو فروغ دیتا ہے۔

نیڈرلینڈز: حجاب کے استعمال پر پابندیاں

نیڈرلینڈز میں بھی کئی سالوں سے حجاب کے استعمال پر مختلف پابندیاں عائد ہیں۔ 2019 میں پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت عوامی دفاتر، اسکولوں اور اسپتالوں میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کی گئی۔ اس قانون کا مقصد عوامی جگہوں پر “غیر معیاری” لباس کو روکنا تھا، جس میں حجاب کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

ترکی: حجاب پر پابندی اور تبدیلی

ترکی میں 1980 کی دہائی سے حجاب پر پابندی تھی، جسے 2013 میں نرم کیا گیا۔ حکومت نے سرکاری دفاتر اور یونیورسٹیوں میں حجاب پہننے کی اجازت دے دی۔ تاہم، ترکی میں حجاب پر پابندی کا مسئلہ ہمیشہ متنازعہ رہا ہے، خاص طور پر لبرل اور سیکولر حلقوں کے درمیان، جو اسے ریاستی سکونت کے خلاف سمجھتے ہیں۔

ایران: حجاب کا قانون اور سختی

ایران میں 1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد حجاب کو تمام خواتین کے لیے لازمی قرار دے دیا گیا۔ ایرانی حکومت کا مؤقف ہے کہ حجاب اسلامی اصولوں کے مطابق خواتین کی عزت اور احترام کی علامت ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں ایران میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے احتجاج میں اضافہ ہوا ہے، جس میں خواتین حجاب سے آزادی کی مانگ کر رہی ہیں، اور کئی خواتین نے اپنی مرضی سے حجاب اتار کر سڑکوں پر مظاہرے کیے۔

سعودی عرب: حجاب اور تبدیلی

سعودی عرب میں حجاب پہننا لازمی ہے، لیکن حالیہ برسوں میں اس حوالے سے کچھ نرم پالیسیوں کو اپنانا شروع کیا گیا ہے۔ 2019 میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے خواتین کے لیے کچھ نئے قوانین متعارف کرائے، جن میں خواتین کے ڈرائیونگ کے حقوق کو تسلیم کیا گیا، اور عمومی طور پر پردے اور حجاب کے بارے میں نظر آنے والے روایتی سخت قوانین میں نرمی کی گئی۔

پاکستان میں حجاب کا معاملہ

پاکستان میں حجاب ایک مذہبی فریضہ سمجھا جاتا ہے، اور اس پر قانون سازی کی ضرورت پر بھی بحث جاری رہتی ہے۔ مختلف صوبوں میں حجاب پہننے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، اور کچھ تعلیمی ادارے اس حوالے سے پالیسی بھی وضع کرتے ہیں۔ پاکستان میں حجاب کو خواتین کے حقوق کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور اکثر اس پر بحث ہوتی ہے کہ یہ ایک فرد کا اختیار ہونا چاہیے یا ایک مذہبی ذمہ داری۔

مزید خبریں