اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) پاکستان کی سیاست میں بدلے ہوئے حالات اور بے چینی کی داستان کچھ یوں ہے کہ جب تک مقتدرہ کی رضا مندی شامل نہ ہو، کسی بھی سیاسی تحریک یا مظاہرے سے حکومت کو گھر بھجوانا ممکن نہیں۔ پاکستان میں تحریکیں اور احتجاج ہمیشہ بڑے دعووں اور وسیع کوششوں کے باوجود اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے، جب تک ان کی پشت پر طاقتور حلقے نہ ہوں۔ اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ اقتدار کی طاقتیں اور مقتدرہ کے فیصلے کسی بھی حکومت کے استحکام یا خاتمے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
2014 میں عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف نے ملک کی تاریخ کا سب سے طویل دھرنا دیا تھا، جس میں پاکستانی میڈیا اور اہم اداروں کی حمایت بھی شامل تھی، مگر وہ نواز شریف کی حکومت کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔ تاہم، یہی عمران خان 2018 کے انتخابات میں جب جنرل (ر) فیض کی حمایت سے اقتدار میں آئے تو وہ وزیرِاعظم بنے اور ان کے سامنے کئی مشکلات کے باوجود حکومت کا سامنا کیا۔ یہ ایک واضح مثال ہے کہ جب تک مقتدرہ کی حمایت حاصل نہ ہو، سیاسی جماعتیں اپنے مطالبات کو عملی طور پر نہیں لا سکتیں۔
آج بھی تحریک انصاف اپنی فائنل کال کے ذریعے حکومت کے خلاف احتجاج کر رہی ہے، لیکن ان کے مطالبات اور کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکیں جب تک مقتدرہ اور حکومت کی رضامندی شامل نہ ہو۔ پی ٹی آئی کی جانب سے جیل میں قید اپنے رہنماؤں کی رہائی اور دیگر مطالبات پر حکومت اور مقتدرہ کی طرف سے جو جواب آیا ہے، وہ منفی رہا ہے۔ اس کے باوجود احتجاج کی شدت اور اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ایک بہت بڑا احتجاج تحریک انصاف کو کچھ فائدہ دے سکتا ہے، لیکن فی الحال یہ مشکل نظر آتا ہے۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں خاص طور پر صوبوں میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی حالت، بیڈ گورننس اور وفاقی حکومت کی بے حسی عوام کو مزید مایوس کر رہی ہے۔ خصوصاً پچھلے کچھ ماہ سے بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں حالات بدتر ہوئے ہیں، اور حکومت کی طرف سے ان مسائل کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ کرم اور دیگر قبائلی علاقوں میں حالات سنگین ہیں، لیکن وزیراعلیٰ اور وفاقی حکومت ان مسائل پر توجہ دینے کے بجائے سیاسی مظاہروں میں مصروف ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ عوام کا حکومت پر اعتماد کم ہو رہا ہے، اور وہ ان کے اقدامات کو غیر مؤثر سمجھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: 24 نومبر احتجاج ، عمران خان ، بشریٰ بی بی اور عارف علوی سمیت درجنوں رہنمائوں کیخلاف مقدمات درج
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما شیرافضل مروت نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ عمران خان کے نام پر عوام نے انہیں ووٹ دیا، لیکن اگر حکومت نے اپنی کارکردگی پر توجہ نہ دی تو آئندہ انتخابات میں نتائج ان کے حق میں نہیں ہوں گے۔ اس بات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عوام کی توقعات بہت زیادہ ہیں، اور اگر حکومت انہیں پورا کرنے میں ناکام رہی، تو عوام مزید بے چین ہو سکتے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان تصادم اور سیاسی تناؤ نے ملک میں استحکام کو مزید متاثر کیا ہے۔ پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی میں مقتدرہ کی حمایت کی ضرورت اور حکومت کے اندرونی خلفشار نے پورے ملک میں بے چینی کی فضا پیدا کر دی ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام کے لئے حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے اور مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنی ہوں گی، ورنہ موجودہ صورتحال مزید بدتر ہو سکتی ہے۔