اسلام آباد(شہزاد انور ملک) پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے حلقے میں اسلحہ کی طاقت اور بدمعاشی کا ایک نیا باب سامنے آیا ہے، جہاں مذہب کے نام گروہ بندی، دھمکیاں، اور غیر قانونی سرگرمیاں بڑھ چکی ہیں۔ اسلام آباد سے لے کر گجرات کے دور دراز علاقوں تک، قاری نعیم اللہ ابدالی جیسے افراد نے علاقے کے معززین کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ان کے بارے میں یہ انکشافات سامنے آئے ہیں کہ وہ مختلف جرائم میں ملوث ہے، جن میں دہشت گردانہ سرگرمیاں، ناجائز اسلحہ کا استعمال اور عوام میں خوف و ہراس پھیلانا شامل ہیں۔
یہ تمام واقعات ایک پرتشدد اور متنازعہ تصویر پیش کرتے ہیں، جہاں پولیس کی ایف آئی آرز اور تحقیقات نے ان گھناؤنی سرگرمیوں کی گہرائی کو بے نقاب کیا ہے۔ تین مختلف ایف آئی آرز میں ان افراد کی مختلف وارداتوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں اسلحہ کی غیر قانونی ملکیت، اغوا اور دہشت گردی کے الزامات شامل ہیں۔
ایف آئی آر 1: اسلام آباد – اغوا کی واردات
سب سے پہلے، 24 ستمبر 2024 کو گوجر خان کے رہائشی واجد حسین شاہ کے بیٹے اور ان کے کزن کو اسلام آباد کے قریب ریلوے پل پر اغوا کر لیا گیا۔ دونوں افراد، جو کہ ایک سیکیورٹی کمپنی میں کام کرتے تھے، بائیو میٹرک حاضری کے لیے دفتر جا رہے تھے، جب ان کو مسلح افراد نے اغوا کر لیا۔ پولیس نے ابتدائی رپورٹ درج کی، جس میں اغوا کی واردات کے پس منظر میں قاری نعیم اللہ ابدالی کا ہاتھ ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا۔ یہ ایک اور پیچیدہ معاملہ بن گیا جب اطلاع ملی کہ قاری نعیم اللہ کے خلاف پہلے بھی جھگڑوں اور افواہوں کا سلسلہ جاری تھا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس کا ہاتھ علاقے میں فساد پھیلانے کی کوششوں میں تھا۔
ایف آئی آر 2: – ناجائز اسلحہ کی برآمد
تھانہ جاتلی پولیس نے ایک بڑی کارروائی کرتے ہوئے ایک مشتبہ کلٹس گاڑی کو روکا تھا، جسے خود قاری نعیم اللہ ابدالی چلا رہا تھا۔ تفتیش کے دوران گاڑی سے ایک 9 ملی میٹر پستول، 12 بور کے شوز اور دیگر خطرناک سامان برآمد ہوا تھا۔ یہ اسلحہ اور دیگر سامان دہشت گردی یا جرائم کی سرگرمیوں میں استعمال ہو سکتے تھے، جس سے پولیس کی بروقت کارروائی نے بڑی نقصان دہ صورتحال کو روکاتھا۔
ایف آئی آر 3: سرگودھا – سازش
کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں نے سرگودھا میں غیر قانونی کارروائی کرتے ہوئے واجد حسین شاہ کے بیٹے اعجاز حسین اور ان کے کزن کو اغوا کر لیا اور ان کے ساتھ زیادتی کی۔ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کارروائی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ قاری نعیم اللہ ابدالی کو سیکیورٹی کے مسائل ہیں، اسی لیے انہوں نے گارڈز رکھے ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق قاری نعیم اللہ ابدالی مختلف جرائم میں ملوث ہے اور اس کے ذریعے وہ علاقے میں خوف و ہراس پھیلا رہا ہے۔
قاری نعیم اللہ ابدالی: مذہب کا لبادہ اوڑھ کر جرائم کی سرپرستی
تمام ایف آئی آرز سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قاری نعیم اللہ ابدالی ایک متنازعہ شخصیت بن چکے ہیں، جنہوں نے مذہب کو اپنی ذاتی فائدے کے لیے استعمال کیا اور علاقے میں خوف و ہراس پھیلایا۔ ان کی سرگرمیاں صرف ان کے اپنے حلقے تک محدود نہیں ہیں، بلکہ پورے علاقے میں بد امنی کی لہر پیدا ہو چکی ہے۔ وہ اپنی مذہبی حیثیت اور سیاسی پوزیشن کو اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لیے استعمال کرتے ہیں، جس سے عوام کی زندگی مشکل ہو گئی ہے۔
حال ہی میں قاری نعیم اللہ ابدالی ایک والی بال ٹورنامنٹ میں مہمان خصوصی بن کر آئے تھے، جس پر علاقے کے لوگوں نے کہا کہ انہیں ان کے ان کارناموں کا علم نہیں تھا۔
اس صورتحال میں یہ بہت ضروری ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس معاملے کی تحقیقات کریں اور ان افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کریں تاکہ ان کے جرائم کا سلسلہ روکا جا سکے اور علاقے میں امن قائم ہو سکے۔
یہ واقعات ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ملک میں دہشت گردی، غیر قانونی اسلحہ کی خرید و فروخت یا عوام میں خوف پھیلانے والی کسی بھی سرگرمی کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ہمیں اپنے معاشرے میں امن قائم رکھنا ہے تو ضروری ہے کہ ہم ایسے مجرموں کا محاسبہ کریں، چاہے وہ کسی بھی طبقے یا گروہ سے تعلق رکھتے ہوں۔
اس کے علاوہ، تھانہ جاتلی کے پولیس اہلکاروں پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ مذہب کے نام پر نوسربازی کرنے والے قاری نعیم اللہ ابدالی کی پشت پناہی کرتے ہیں اور ممکنہ طور پر ناجائز اسلحہ کی تقسیم میں ملوث ہیں۔ گوجر خان کے رہائشیوں کا مطالبہ ہے کہ اس شخص کو قانون کے مطابق سزا دی جائے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی کارروائیوں کو مزید مضبوط کریں تاکہ اس طرح کے افراد مزید لوگوں کی زندگیوں کو متاثر نہ کر سکیں اور ان کے جرائم کا خاتمہ ہو سکے۔