اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) آج کل کے دور میں ڈجیٹل فحاشی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے، جو خاص طور پر نوجوانوں اور بچوں کے لیے تشویش کا باعث بن رہی ہے۔ ٹِک ٹاک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے دنیا بھر میں ایسے مواد کی تخلیق اور تقسیم کو فروغ دیا ہے جو اخلاقی اور ثقافتی اقدار کے خلاف ہے۔
پاکستان میں اس وقت ڈجیٹل فحاشی کا بڑھتا ہوا رجحان واضح طور پر دیکھا جا رہا ہے، اور یہ نہ صرف اخلاقی مسائل پیدا کر رہا ہے بلکہ بچوں کے ذہنوں پر بھی منفی اثرات ڈال رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہونے والی بے تحاشا ویڈیوز، جو کہ اکثر فحش مواد پر مبنی ہوتی ہیں، نوجوانوں میں غلط تصورات پیدا کر رہی ہیں اور انہیں معاشرتی طور پر غیر صحت مندانہ طریقوں کی طرف راغب کر رہی ہیں۔
ٹِک ٹاک اور دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز: ایک نظر
پاکستان میں ٹِک ٹاک جیسے ایپس نے بڑی تیزی سے مقبولیت حاصل کی ہے، اور اس کی وجہ سے کئی نوجوانوں کی ذہنی حالت متاثر ہو رہی ہے۔ خاص طور پر فحش ویڈیوز اور اس کے پروڈکشن میں استعمال ہونے والے مواد کا اثر بچوں پر پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ، ان ایپس کی مقبولیت کی وجہ سے ان پر موجود مواد کا تجزیہ بھی مشکل ہو جاتا ہے، اور اکثر بچوں اور نوجوانوں کو غیر اخلاقی مواد کی جانب مائل کیا جا رہا ہے۔
معاشرتی اثرات
ڈجیٹل فحاشی کے بڑھتے ہوئے اثرات نہ صرف فرد کی ذہنی حالت پر اثرانداز ہو رہے ہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ خاندانوں میں تناؤ اور بچوں میں اخلاقی اور ذاتی اقدار کی کمی کا سامنا ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی روابط اور تعلقات میں بھی دراڑیں پڑ رہی ہیں، جو کہ آخرکار سماجی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
حل اور تجاویز
- تعلیمی اداروں میں آگاہی: نوجوانوں اور بچوں کو سوشل میڈیا کے خطرات اور اس کے اخلاقی اثرات کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔
- مقامی قوانین کا نفاذ: حکومت کو ڈجیٹل فحاشی کے خلاف سخت قوانین بنانی چاہیے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نظر رکھنی چاہیے۔
- سوشل میڈیا کا مثبت استعمال: نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے مثبت پہلوؤں سے متعارف کروایا جائے اور انہیں اس کے صحیح استعمال کے بارے میں بتایا جائے۔
- والدین کا کردار: والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور انہیں ڈیجیٹل فحاشی سے بچانے کے لیے فعال کردار ادا کریں۔
خلاصہ
ڈجیٹل فحاشی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں معاشرتی، اخلاقی اور ثقافتی مسائل پیدا کر رہی ہے۔ اس کا تدارک صرف حکومت، تعلیمی اداروں، سوشل میڈیا کمپنیوں اور والدین کے مشترکہ تعاون سے ہی ممکن ہے۔
مزید پڑھیں: سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلانے والوں کیخلاف گھیرا تنگ، 15 سال تک سزا اور بھاری جرمانے کی منظوری