جمعرات,  21 نومبر 2024ء
شہری ذہنی مریض بن رہے ہیں، حکومتی نرخوں پر اشیاء خوردونوش، سبزی، فروٹ، گوشت، دودھ، دہی ملنا ناممکن

 

حافظ آباد (شوکت علی وٹو): ضلع بھر میں سرکاری نرخوں پر اشیائے خوردونوش، دودھ، دہی، گوشت، سبزی، اور فروٹ سمیت اکثر اشیاء ملنا ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ نرخوں کی فہرست صرف لٹکانے اور دکھانے کے لیے ہوتی ہے، کیونکہ مارکیٹ میں ان نرخوں پر اشیاء دستیاب نہیں۔

شہریوں نے بتایا کہ دو درجن سے زائد پرائس مجسٹریٹس جو کہ کلاس فور کے ملازمین پر مشتمل ہیں، اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ جرمانے اکثر ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں، اور رشوت کی شکل میں نقدی یا اشیاء لے کر ان کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔ اس صورتحال نے شہریوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے، کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ناجائز منافع خوری نے ان کے لیے زندگی مشکل کر دی ہے۔

مقامی بازاروں میں صورتحال یہ ہے کہ بکرے کا گوشت جس کا سرکاری نرخ 1600 روپے فی کلو مقرر کیا گیا ہے، وہ 2000 روپے سے 2200 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہا ہے، جبکہ گائے، بھینس، بچھڑے اور کٹے کا گوشت جو سرکاری طور پر 800 روپے فی کلو کے حساب سے ہے، وہ 1000 روپے فی کلو میں مل رہا ہے۔ دودھ اور دہی کی قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، دودھ کا سرکاری نرخ 150 روپے فی لیٹر ہے، لیکن وہ 170 سے 200 روپے فی لیٹر تک فروخت ہو رہا ہے، جبکہ دہی 160 روپے فی کلو کی بجائے 220 سے 250 روپے تک مل رہا ہے۔

اس کے علاوہ، برائلر مرغی گوشت کا سرکاری نرخ 509 روپے فی کلو مقرر کیا گیا ہے، لیکن یہ 560 روپے فی کلو کے حساب سے بیچا جا رہا ہے۔ سبزیوں اور فروٹ کا بھی یہی حال ہے، جن کی قیمتیں مارکیٹ میں سرکاری نرخوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ روٹی کا وزن بھی کم کیا جا رہا ہے، اور بھٹہ خشت پر اینٹ کی قیمت 16000 روپے تک پہنچ چکی ہے، جو کہ سرکاری نرخ لسٹ سے تقریباً دوگنا ہے۔

مقامی دوکانداروں کا کہنا ہے کہ ان کو چھوٹا اور کمزور سمجھا جاتا ہے، جبکہ طاقتور اور بڑی دکانوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ یہی نہیں بلکہ بھٹہ مالکان کی جانب سے بھی ٹیکس چوری کی جا رہی ہے اور فی ہزار اینٹ سے ہزاروں روپے تک اضافی وصول کیے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومتی مشینری ہی انہیں ریلیف دینے کے بجائے خود حکومت کی نیک نامی کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ جن افسران نے حکومتی احکامات پر عمل درآمد کرانا ہے، وہی مافیاء کے ساتھ تعاون کر کے عوام کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس صورتحال سے عوام کا حکومت پر اعتماد متزلزل ہو رہا ہے، اور اگر یہی صورتحال رہی تو حکومت کو اس کا سیاسی اور عوامی نقصان اٹھانا پڑے گا۔

شہریوں نے چیف سیکرٹری پنجاب اور وزیراعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سنگین صورتحال کا نوٹس لیں اور عملی اقدامات کو یقینی بنائیں تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے اور حکومت کی نیک نامی بحال ہو سکے۔

مزید خبریں