لندن(صبیح ذونیر) برطانیہ کی جانب سے اسرائیل کو ہتھیار برآمد کرنے کے 350 لائسنسوں میں سے 30 کو معطل کرنے کے اعلان کے بعد برطانوی وزیردفاع کے اعلان کی وضاحت کی ہے۔
برطانوی وزیر دفاع جان ہیلی کی طرف سے اسلحہ لائسنسوں کی معطلی کے اعلان کے بعد وزیرخارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ اسرائیل کے اپنے دفاع کی صلاحیت کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔
انہوں نے منگل کو’ٹائمز ریڈیو‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “اس سے اسرائیل کی سلامتی پر کوئی ٹھوس اثر نہیں پڑے گا”۔
اسلحہ لائسنس معطل
برطانوی دفتر خارجہ کی طرف سےیہ وضاحت ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب برطانوی حکومت نے اس سے قبل کہا تھا اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات کے 350 لائسنسوں میں سے 30 کو فوری طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا ہے جس کی وجہ اس بات کا خطرہ ہے کہ یہ ہتھیار بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی میں استعمال ہو سکتے ہیں۔
اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کرتے ہوئے لیمی نے مزید کہا کہ “بے گناہی یا جرم کا اثبات نہیں ہے اور برطانوی حکومت کا موقف پختہ نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس بات پر فیصلہ نہیں کیا اور نہ ہی کر سکتے ہیں کہ آیا اسرائیل نے بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کی ہےیا نہیں۔ اس لیے کہ برطانیہ بین الاقوامی عدالت نہیں ہے۔
اسرائیل مایوس
اسرائیل نے برطانیہ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے حماس اور ان کے حمایتی ایران کو مسائل سے لبریز پیغام جائے گا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’’اے ایف پی‘‘ کے مطابق برطانوی وزارت خارجہ کی جانب سے غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیل کے جنگ کے بارے میں خدشات کے پیش نظر ہتھیاروں کی فروخت کا جائزہ لینے کے بعد یہ اعلان سامنے آیا ہے۔
سیکرٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ برطانیہ فوری طور پر اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات کے 350 لائسنسوں میں سے 30 کو معطل کر رہا ہے جس کی وجہ اس بات کا خطرہ ہے کہ یہ ہتھیار بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی میں استعمال ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لائسنس معطل کرنے کا فیصلہ مکمل پابندی یا ہتھیاروں کی فراہمی روکنا نہیں بلکہ صرف ان ہتھیاروں پر پابندی لگائی جا رہی ہے جن کا غزہ میں استعمال ہونے کا خدشہ ہے۔
’ان ہتھیاروں میں لڑاکا طیارے، ہیلی کاپٹر اور ڈرون طیارے شامل ہیں تاہم اس پابندی کا اطلاق ایف-35 لڑاکا طیاروں کے پرزوں پر نہیں ہو گا‘۔
یاد رہے کہ برطانوی وزیر خارجہ نے جولائی میں کنزرویٹو پارٹی کے خلاف عام انتخابات میں لیبر پارٹی کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ہتھیاروں کی فروخت پر نظرثانی کا اعلان کیا تھا۔
مزید پڑھیں:برطانیہ : اسرائیل کو اسلحہ فراہمی پر محدود پابندی سے دونوں ملکوں میں مایوسی کا اظہار
انہوں نے کہا کہ میں افسوس کے ساتھ ایوان زیریں (ہاؤس آف کامنز) کو مطلع کرتا ہوں کہ مجھے جو تجزیہ موصول ہوا ہے اس سے میں اس کے علاوہ کچھ نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر ہوں کہ برطانیہ کی جانب سے اسرائیل کو برآمد کیے جانے والے کچھ ہتھیاروں کے حوالے سے ’اس بات کا واضح خطرہ‘ موجود ہے کہ وہ بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی میں استعمال ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کوئی عالمی عدالت نہیں اور ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ اسرائیل نے بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزیاں کی ہیں یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ اسرائیل کے دفاع کے لیے کھڑا رہے گا اور ان ہتھیاروں کے لائسنس کی معطلی سے اسرائیل کی سلامتی پر اثر نہیں پڑے گا۔
خیال رہے کہ برطانیہ کی بائیں بازو کی لیبر حکومت نے 5 جولائی 2024 کو اقتدار سنبھالنے کے بعد متعدد بار اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی اور انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل کا مطالبہ کیا ہے۔
تاہم کنزرویٹو حکومت کی طرح اس حکومت نے بھی حماس سے مذاکرات کے حوالے سے وہی موقف اپنایا ہے کہ کسی بھی قسم کی جنگ بندی کے لیے حماس سات اکتوبر 2023 کو اغوا کیے گئے تمام یرغمالیوں کو رہا کرے۔