هفته,  23 نومبر 2024ء
سوشل میڈیا بیماری ہے؟

شہریاریاں۔۔۔ تحریر: شہریار خان

سوشل میڈیا ایک بیماری بھی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ وہ بیماری ہے جس سے دور رہنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ تیس سال پہلے بھی ہم تو ایسے ہی تھے مگر فون اس طرح زندگی کے ساتھ جڑا نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے موبائل فون آنے سے پہلے پیجر ہوا کرتا تھا۔

میرے ایک دوست حسیب بھٹی نے مجھے پیجر خریدنے پر آمادہ کیا بلکہ وہ خرید لایا اور میں نے پھر اسے قیمت ادا کی تھی۔۔ مجھے اپنے ادارے کی مناسبت سے پی پی اے فورر نمبر الاٹ کروایا تھا بھٹی صاحب نے۔۔ وہ جدت کی جانب میراپہلا قدم تھا،اس کے بعد جب میں نے پہلا موبائل فون خریدا توکم لوگوں کے پاس موبائل فون ہوتا تھا۔

اس وقت سم والے فون نہیں تھے، ایمپس فون کہلاتے تھے اور وہ فون کمپنیاں پاک ٹیل اور انسٹا فون اب بند بھی ہو چکی ہیں کیونکہ انہوں نے ترقی کا سفر طے نہیں کیا تھا۔ پاک ٹیل کمپنی کو غالباً زونگ نے خریدا تھا۔۔ اس وقت فون پر آنے والی کال یعنی ان کمنگ کال کے بھی پیسے ادا کرنا پڑتے تھے اس لیے صرف ضروری فون سنتے تھے۔

اس دور میں ایس ایم ایس کی سروس بھی نہیں تھی۔ بس فون ہوتا تھا بہت ضروری کال کے لیے اور اسے اسی طرح سنبھال کے رکھا جاتا تھا۔۔ مختلف سائز اور اشکال کے فون ہوا کرتے تھے۔ کچھ لوگ تو ایسا موبائل فون استعمال کرتے تھے جس کی شکل ڈائلر فون کی طرح کی تھی اور وہ فون ان کے ڈرائیور یا گن مین اٹھایا کرتے تھے۔
جب میں نے موبائل فون خریدا تو ابو جی نے کہا بیٹا گھر میں بھی فون ہے اور دفتر میں بھی۔۔ پھر یہ فضول خرچی کیوں؟۔ میں بس سر جھکا کر خاموش ہو گیا۔ انہوں نے موبائل فون نہیں خریدا۔ پھر میں انگلینڈ گیا تو وہاں نئے سے نیا ماڈل دیکھا بھی اور خریدا بھی۔ ہر تین چار ماہ بعد نیا ماڈل کا فون دیکھ کر طبیعت بے ایمان ہوتی اور میں کیش ادائیگی کے ساتھ موبائل فون کمپنی سے کنٹریکٹ اپ گریڈ کروا لیتا۔

دو تین ماہ استعمال ہونے والے فون کسی آتے جاتے کے ہاتھ پاکستان بھجوا دیتے، اس وقت تک یہ ماڈل پاکستان نہیں پہنچے ہوتے تھے، اب تو خیر پورا ملک ہی جدید ہو چکا ہے اور نیا لانچ ہونے والا فون یہاں بھی فوراً پہنچتا ہے بلکہ کئی لوگ نیا لانچ ہونے والا ماڈل لینے کے لیے دبئی بھی جاتے ہیں۔

میں تو یہ سوچتا ہوں کہ پہلے فون صرف کال کرنے یا وصول کرنے کے لیے تھا۔ اب تو فون کا استعمال بجلی اور گیس کے بل کی ادائیگی، بچوں کی اسکول فیس ادا کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں کالر آئی ڈی کی سہولت بھی نہیں تھی مگر اب آپ وڈیو کال پر دور کسی ملک میں رہنے والے رشتے داروں کو دیکھ بھی سکتے ہیں۔

میرا تعلق اس جنریشن سے ہے جس نے ٹیلیکس، ٹیلی پرنٹر کے بعد فیکس کی سہولت بھی دیکھی بلکہ استعمال بھی کی۔۔ ٹیلی فون انڈسٹریز پاکستان کے بنے ہوئے پرانے فونز کے بعد ڈائلنگ پیڈ والے فون آئے پھر وائر لیس فون بھی آیا جسے ہم بڑے فخر سے استعمال کیا کرتے مگر اس کی رینج زیادہ نہیں ہوتی تھی۔

ویسے وہ دور اچھا تھا جب پورے محلے میں ایک ہمارے گھر میں فون ہوا کرتا تھا اور شدید گرمی ہو، دھوپ ہو یا بارش، سرد رات ہو اور آپ لحاف میں لیٹے ہوں اور ایسے میں فون بجتا تو ہم دعا کیا کرتے کہ یا اللہ اس وقت محلے سے کسی کو بلانے کے لیے جانا نہ پڑے۔

اکثر ایسی دعائیں شرف قبولیت نہ پاتی تھیں اور لحاف سے نکل کر محلے داروں کو جا کر بتاتے کہ آپ کا فون آیا ہے، پانچ منٹ بعد دوبارہ کریں گے۔ان کو بلا کر لاتے، ان کے جانے کے بعد دوبارہ دروازہ بند کیا جاتا۔۔ پھر بھی یہ گارنٹی نہ ہوتی کہ یہ آخری کال ہو گی کسی اور محلے دار کی کال بھی آ سکتی تھی۔

ایک ہمسائے کسی دور دراز ملک میں رہتے تھے جب وہ مہینے میں ایک مرتبہ کال کرتے تو سارا خاندان ہمارے ڈرائنگ روم میں موجود ہوتا اور ان کے لیے چائے کا بندوبست بھی کیا جاتا تھا۔ اسی طرح ہمارے سامنے رہنے والے پڑوسی کا نکاح امریکا میں رہنے والے اپنے عزیزوں میں ہوا۔

جب ان کے لیے امریکا سے فون آیا کرتا تو وہاں صبح ہوا کرتی مگر یہاں اس وقت رات ہوتی۔۔ ان کے آنے پر بھی اسی طرح چائے اور دیگر لوازمات ضروری تھے۔ زمانہ خالص تھا اس لیے ہمیں اس خدمت پر اعتراض کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ ہماری امی جی اسے گناہ سمجھتی تھیں۔

زمانہ وہ ہی اچھا تھا جہاں صرف گھر میں نہیں بلکہ محلہ میں بھی خلوص سے ملا کرتے تھے۔ محلے کو بھی گھر کا حصہ ہی جانا جاتا تھا۔ آج زمانہ ترقی کر چکا ہے، ایک گھر میں چار پانچ موبائل ہوتے ہیں مگر خلوص کی حالت یہ ہے کہ ہم محلہ تو دور گھر میں بھی ایک دوسرے کی مشکلات سے آگاہ نہیں ہوتے۔

ایک ہی گھر میں رہنے والے پانچ افراد اکثر و بیشتر اپنے اپنے موبائل فون کی دنیا میں غرق ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی رفتار کم ہو جائے یا ڈیٹا ختم ہو جائے تو انسان اپنے گھر والوں کی شکل بھی غور سے دیکھتا ہے اور اسے علم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بھی اچھے لوگ ہیں۔

آج ہم کتابوں سے دور ہیں، بس سوشل میڈیا پہ شئیر ہونے والی خبروں کو ہی درست مان لیتے ہیں چاہے وہ کسی نے گھر بیٹھ کر ہی بنائی ہوں لیکن چونکہ وہ ہمارے نظریات کے عین مطابق ہوتی ہیں اس لئے ہم انہیں درست مان لیتے ہیں، اچھے بھلے لوگ جنہیں ہم پڑھا لکھا سمجھنے کی غلطی کرتے ہیں وہ سوشل میڈیا کی کسی وائرل پوسٹ کو بغیر تصدیق کے فارورڈ کر کے اپنے آپ کو دنیا کا ایسا شخص تصور کر رہے ہوتے ہیں جو گوگل سے بھی زیادہ جانتے ہیں۔

مزید پڑھیں: سوشل میڈیا سروسز کب تک معمول پر آجائیں گی؟

آج ہماری خبروں کا معیار یہ رہ گیا ہے کہ ہم وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے یوم آزادی پر پہنے گئے سوٹ کی قیمت کا اندازہ لگا رہے ہیں، کوئی کہہ رہا ہے کہ وہ پینتیس ہزار کا ہے تو دوسرا کسی اور برانڈ کی ویب سائٹ کا لنک شیئر کر کے بتاتا ہے کہ یہ پچاس ہزار روپے کا سوٹ ہے۔

ہم ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی اس چکر میں پھنسے ہوئے ہیں کہ میرے دوست کے پاس ففٹین پرو ہے میرے پاس فورٹین ہے۔۔ ہم ٹیکنالوجی کا استعمال صرف جھوٹ پھیلانے کے لیے کر رہے ہیں جبکہ دنیا اس کا استعمال پروفیشنل انداز میں کرتی ہے، ہم صرف سوٹ اور بیگ کی قیمتیں چیک کر رہے ہیں۔۔ یہی ہماری نظر میں ٹیکنالوجی کا سب سے بہترین استعمال ہے۔

مزید خبریں