لاہور(روشن پاکستان نیوز) پاکستان میں مشروم کو کبھی زہریلی بُوٹی کہا جاتا تھا لیکن چائنیز کھانوں کی مقبولیت کے بعد کسان اب مشروم اُگانے کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ مشروم کی کاشت کے لیے وسیع زمین کی بھی ضرورت نہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مشروم کی اِن ڈور کاشت کی جا رہی ہے اور کسان اس فصل سے مطمئن ہیں۔
مشروم کو سپر فوڈ کے طور پر استعمال کیا جاتاہے، اس میں گوشت سے بھی زیادہ پروٹین پائے جاتے ہیں۔مشروم فارمنگ ایک انتہائی منافع بخش کاروبار ہے۔
پاکستان کے مشہور لیڈنگ فارمرریحان قدیر کہاہے کہ پاکستان میں مشروم کے کاروبار کا بہت بڑا مانگ ہے، انہوں نے کہا کہ کھمبی کی صرف ایک شاخ سے ہرہفتے کے بعد تین ماہ تک نصف کلو سے زائد خوراک کی جاسکتی ہے لہٰذاکاشتکار کھمبی کی کاشت کو فروغ دے کر بھاری مالی منافع بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک سو بیڈز میں کھمبی کی کاشت سے ایک ہفتے میں 120کلو گرام کھمبی حاصل کی جا سکتی ہے اس طرح 150روپے فی کلو گرام کے حساب سے ایک ہفتے میں 25ہزار جبکہ مہینے میں ایک لاکھ روپے کمائے جا سکتے ہیں۔انہوں نے بتایاکہ امریکہ میں ایک پاﺅنڈ اویسٹر کھمبی تقریباً15ڈالر میں فروخت ہو رہی ہے۔
جبکہ200مربع فٹ میں کاشت کی گئی کھمبی سے ایک فصل میں 1000پاﺅنڈ جبکہ سال بھر میں تقریباً5ہزار کھمبیاں حاصل کی جا سکتی ہیں جن کی قیمت 30ہزار امریکن ڈالر بنتی ہے ۔انہوں نے بتایاکہ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کھمبی کی قسم کاشت کر کے اچھا خاصا زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے تاہم اس بات کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ کھمبی کی زہریلی اقسام کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا بیج جسے سپان کا نام دیا جاتا ہے خصوصی ماہرین کی نگرانی میں تیار کرانا چاہیے۔
انہوں نےکہا کہ اب ہمارے ہاں اس کا بیج تیار کیا جاتا ہے جو دوسرے ممالک کے بیج سے زیادہ بہتر کوالٹی کا حامل ہے اس لئے ایسے کسان جو کھمبی کاشت کرنا چاہتے ہیں انہیں کاشت کے موسم سے پہلے اپنا آرڈر دے دینا چاہیے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس کی طلب کے سیزن میں ےہ دستیاب نہ ہو سکے ۔انہوں نے بتایاکہ چونکہ کھمبی کی کاشت کو منافع بخش بنانے کےلئے بنیادی تربیت کی ضرورت ہے اس لئے جامعہ زرعیہ کا متعلقہ ڈیپارٹمنٹ شارٹ کورسز کا بھی اہتمام کراتا ہے نیز اس ادارے کی مشروم لیب سے وابستہ ماہرین سے وہ لوگ مشورہ کر کے ہدایات حاصل کر سکتے ہیں جو اس نفع بخش کاروبار کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔
مشروم کوسال میں 2 بار مارچ اور اکتوبر کے درمیان کاشت کیا جا سکتا ہے لہٰذا مشروم کی کاشت کو وسعت دے کر زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کھمبیوں کی 56اقسام کھانے کے قابل ہیں جن میں سے 4بلوچستان، 3سندھ، 5پنجاب اور 44اقسام خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں پائی جاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مشروم کی 4 مقبول ترین اقسام بٹن یا یورپین مشروم، جاپانی مشروم،چینی مشروم اور بیسٹر مشروم کہلاتی ہیں اور پاکستان میں اعلیٰ معیار کے ایویسٹر مشروم دستیاب ہیں جن کی مزید درجہ بندی سفید، سنہری، سرمئی اور گلابی ایویسٹر مشروم کے ناموں سے کی گئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ امریکا، جاپان، جرمنی، تائیوان اور بعض دیگر ممالک میں مشروم کمرشل بنیادوں پر کاشت کی جاتی ہے جبکہ پاکستان، بھارت، تائیوا ن، تھائی لینڈ اور چین بھی اس کی برآمد سے غیر ملکی زر مبادلہ حاصل کرتے ہیں۔انہوں نے بتایاکہ بہت سی ڈشز کی تیاری میں بھی کھمبیوں کا استعمال کیا جاتاہے جس کے باعث دنیا بھر میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہاہے۔ انہوں نے بتایاکہ دنیا بھر میں 15لاکھ ٹن مشروم کی پیداوار ہو رہی ہے اور اس مقدار میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ بارشوں کے موسم میں کھمبیوں کی ایک بڑی مقدار قدرتی طور پر جنگلوں میں پائی جاتی ہے ۔
مزید پڑھیں: کاروباری طبقہ بھی حکومت سےنالاں، تاجر دوست اسکیم کیخلاف ملک گیر احتجاج کی تیاری
جس کے2حصے ہوتے ہیں ان میں بالائی کیپ اور تنا کیپ کی نچلی تہہ پر بڑی تعداد میں بیج پیدا ہوتے ہیں جوکہ گردونواح میں پھیل جاتے ہیں جہاں انہیں ساز گار ماحول دستیاب ہوتا ہے اور وہ اس جگہ پر اگ آتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ کھمبیوں کی مختلف اقسام پاکستان میں قدرتی طور پر کئی جگہوں پر پائی جاتی ہیں اورانہیں مقامی طور پر کنڈیر، کھپہ،ہنڈایا، گچھی کے نام دیئے جاتے ہیں۔انہوں نے بتایاکہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں پائی جانے والی کھمبیوں کو گچھی کا نام دیا جا تا ہے جس کا شمار قدرتی طور پر اگنے والی انتہائی مہنگی مشروم میں ہوتا ہے جس کو دھوپ میں خشک کر کے بیرون ملک برآمد کیا جا تا ہے۔انہوں نے بتایاکہ ا یک اندازے کے مطابق 90ٹن گچھی پاکستان یورپ کو برآمد کرتا ہے نیز دنیا بھر میں کھمبیوں کی تقریباً 15سو اقسام پا ئی جاتی ہیں جن میں کچھ کھانے کے قابل جبکہ دوسری زہریلی ہیں۔