جمعه,  18 اکتوبر 2024ء
زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات۔۔!!

سید شہریار احمد

ایڈوکیٹ ہائی کورٹ

جب صنف مخالف محبت میں گرفتار ہو جائیں تو بالاخر ناقابل تلافی نقصان مرد کو ہی اٹھانا پڑتا ہے

کیونکہ عورت کے پاس آپشنز ہوتے ہیں

وہ جانتی ہے کہ 12 سال کے بچے سے لے کر 70 سال کے بوڑھے تک سب اس کی نظر عنایت کے تمنائی ہیں

اگر وہ بھولے سے بھی کسی کی طرف دیکھ بیٹھے تو وہ شخص اس کے قدموں میں دو زانو ہو کر بیٹھ جاتا ہے

شاید اسی لیے عورت ہر لمحہ ،ہر وقت ،مردوں کا استحصال کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتی

اسی تناظر میں لکھی  گئی یہ کہانی  ایک  کہانی نہیں یہ سچا واقعہ ہے
جس میں صرف کردار فرضی ہیں لیکن واقعات سچے

اور ضرورت محسوس ہوئی تو اصلی کرداروں کے نام بھی ظاہر کر دیے جائیں گے

لیکن فی الحال ہم ان کے فرضی نام رکھ لیتے ہیں

جیسے
دیپک اور ریکھا
یا فرزانہ اور ظفر

نہیں نہیں کچھ تھوڑے رومینٹک سے نام نہ رکھ لیں؟

جیسے شہری اور سام؟

ہاں یہ شہری اور سام ٹھیک رہے گا

یہ دو لوگوں کی آپس کی ریلیشن شپ کی کہانی ہے

جو میں ایک فرضی کردار بن کے آپ کے سامنے پیش کروں گا

جب ہم دونوں ،تم میں اور وہ فلم کا پریمیئر دیکھ کر شدید بارش میں تمہارے گھر کی طرف جا رہے تھے
اور پھر کار میں وہی ہوا جس کا ڈر تھا
اور ایسا ہی ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو ۔جب دو جیتے جاگتے انسان،دھڑکتے دلوں کے ساتھ، ٹھنڈے موسم میں، کار میں بیٹھے ہوں اور پھر وہ بوس و کنار نہ کریں
یہ اس گفتگو کا منطقی اور حتمی نتیجہ تھا جو ہم واٹس ایپ پہ جنسی لذت کے حوالے سے کر لیا کرتے تھے

تم کہہ رہی تھی شہری نہ کرو
نہ کرو پلیز
میں  اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکوں گی
اور میں کہہ رہا تھا کہ کوئی بات نہیں سام
ہو جاؤ تم ایسے
اور پھر میں تمہارے نرم و نازک اور گرم پستان سے کھیلنے لگا
جب کہ تم ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی تھی
یہ جانتے ہوئے کہ میں اس سے بار بار محبت کا اظہار کر چکا تھا
لیکن جیسا کہ عورت کی جبلت ہے، بھرپور جنسی خواہش رکھتے ہوئے بھی، چند بار ،ناپسنددیدگی کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے

میں نے اس کے سینے سے کھیلنے کا عمل جاری رکھا اور جب جنسی لذت حاصل ہونے لگی تو اس کا ایک جملہ جو میرے کانوں میں پہنچا اور جس سے میری سانس اٹک گئی
اور جو میرے دماغ پہ ہتھوڑے کی طرح برسا

مجھے اس کی صرف آواز آرہی تھی، کہ مجھے اب جنسی لذت میں وہ خواہش نہیں رہی

کیونکہ میں  بہت سارے مردوں کے ساتھ وقت گزار چکی ہوں
بہت سارے مردوں کے ساتھ سوئی ہوں

نہ جانے اس کے دل میں کیا آئی ؟
یہ کون سا لمحہ تھا ایسا؟
کون سا مناسب وقت تھا کہ اس کو یہ بات کہنا پڑی

لیکن جیسا کہ مرد کی نفسیات ہے
جو مرد کسی طوائف کے ساتھ بھی تھوڑا بہت وقت گزارلے تو وہ اس کی بھی پاک دامنی کا قائل ہو جاتا ہے اور طوائف سے بھی اسے محبت ہو جاتی ہے
لیکن یہ تو پھر ایک ڈاکٹر ہے
پڑھی لکھی ہے
پانچ دفعہ کی گولڈ میڈلسٹ ہے
اچھے خاندان کی لڑکی ہے

پھر ویسے ہی ہوا کہ جیسا ہونا چاہیے تھا جنسی لذت کا مزہ جاتا رہا

میرے دماغ اور دل میں بحث شروع ہو گئی
دماغ نے کہا کہ ایسی لڑکی جو کئی سال تک غیر مردوں سے جنسی تعلق رکھ چکی ہے
تو میری اس کے لیے کیا اہمیت ہوگی؟
اور جب چاہے گی مجھے چھوڑ دے گی
اور کسی اور کے ساتھ سلسلہ شروع کر دے گی

لیکن پھر دل نے سمجھایا کہ کوئی بات نہیں

اس کا ماضی ہے

ہو سکتا ہے وہ تائب ہو گئی ہو
ہو سکتا ہے وہ شرمندہ ہو

ہوسکتا ہے وہ آئندہ دھوکا نہ دے
دماغ اور دل کی جنگ میں دل جیت گیا
اور میں نے اس کے ماضی کے سارے گناہوں کے اعترافات کو بھلا دیا

اس کے بعد کیا ہوا ؟
بعد میں بات کرتے ہیں

پہلے ،پہلی ملاقات کا ذکر کر لیں جس کے باعث برسات کی اس رات کا یہ واقعہ رونما ہوا
جس رات اس نے اپنے عاشق سے وہ راز شیئر کیے جو اس فانی دنیا میں شاید ہی کوئی لڑکی شیئر کرے

اس سے سام کا مقام و مرتبہ اور عزت، میری نظر میں اور بڑھ چکی تھی
اس کی سچائی اور صاف گوئی کی وجہ سے
جب اس نے بتایا تو اس کے بہت سے لوگوں سے جسمانی مراسم قائم رہ چکے ہیں

اس اعتراف سے میرے دل کی دھڑکن رک گئی تھی

لیکن ہائے بد قسمت مرد، جب کسی کے پیار میں گرفتار ہو جائے تو اس کو کتنے نشتر اپنے سینے پر سہنے پڑتے ہیں یہ صرف وہی جان سکتا ہے

کہا جاتا ہے کہ جب مرد کسی پیاری لڑکی کو دیکھتا ہے تو اس کی 50 فیصد عقل ماری جاتی ہے
اور اگر اپنی من پسند لڑکی کو دیکھ لیں تو 80 فیصد مت ماری جاتی ہے
کہا جاتا ہے کہ اگر مرد سر پہ چڑھ جائے تو عورت چند منٹوں میں اسے سر سے زمین پہ لا پٹکتی ہے
لیکن اگر عورت کو سر پہ چڑھا لیں تو کوئی طاقت اس کو سر سے اتار نہیں سکتی

لیکن دیکھو میں نے اتار دیا

مجھے ایک دوست کہا کرتا تھا کہ میری چار گرل فرینڈز ہیں کوئی کہتا تھا میری چھ ہیں
میں کہتا تھا گرل فرینڈ بنانا کوئی کمال نہیں ہے
گرل فرینڈ کو چھوڑنا کمال کی بات ہے
تم یہ بتاؤ کہ تم نے کتنی لڑکیوں کو چھوڑا؟

باقی آئندہ

مزید خبریں