اسلام آباد(محمد وقاص سے)فقیر کا لفظ عربی کے فقر سے نکلا ہے جس کے معنی ضرورت مند اور محتاج کے ہیں۔فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ ہومگرنہ اتناکہ نصاب کوپہنچ جائے یانصاب کی مقدار ہوتواس کی حاجت اصلیہ میں مستغرق ہو۔
کمسن بچوں وبچیوں اور خصوصاًخواتین گداگروں نے اس وقت ملک کے تمام چھوڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں،جسکی وجہ سے جگہ ،جگہ گداگروں کی بھرمار ہے،جگہ جگہ پیشہ ور گداگر خیرات لینے کیلئے گھوتے پھرتے ہیں،بازاروں میں گھومنے پھرنے سے عوام اور تاجر برادری بھی پر یشان ہیں،جبکہ پولیس اور انتظامیہ بھی کمسن بچوں اورخواتین کے بھیک مانگنے پر پر مکمل خاموش ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں آئے روز فقیروں کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، حالات کے ستائے لوگ کچھ نہ کر پانے پر فقیر بن جاتے ہیں اور سڑکوں،چوکوں چوراہوں، گلی، محلوں اور گھروں میں بھیک مانگنا شروع کر دیتے ہیں جس سے انہیں اچھی خاصی انکم ہو جاتی ہے۔
ایسے ہی ایک نجی ٹی وی کے مرد و خاتون اینکربھیس بدل کر ایک چوک پر کھڑے ہو گئے اور ایک کاغذ پر لکھ دیا کہ میرے دل میں سراخ ہے،مدد کی جائے۔
اس پر لوگوں نے ان کی مدد شروع کر دی اور انہوں نے تقریبا 10 گھنٹے میں 20 ہزار روپے کما لیے جس کے بعد وہ واپس اپنے دفتر آگئے اور دیکھنے والوں کو بتایا کہ انہوں نے کس طرح لوگوں کے سامنے بھیک مانگی اور بیس ہزار روپے 10 گھنٹے میں کما لیے۔
انہوں نے کہا کہ اس حساب سے ایک بھکاری اگر روزانہ 10 گھنٹے لگائے اوربیس ہزار روپے روزانہ کمائے تو ماہانہ چھ لاکھ روپے تک انکم کماتا ہے۔
گدا گری اب مجبوری کے نام سے نکل کر سو فیصد منافع بخش کاروبار بن گیاہے اس پیشے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر دروازے پر پہنچنے کی آزادی فراہم کرتی ہے،بد قسمتی سے اس مکروہ اور فریب کے کاروبار کی بیخ کنی کیلئے قانون تو موجود ہے لیکن اسکے باوجودبھیک مانگنے والے بچوں کی تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہاہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ بھکاریوں کی بہتات سے محسوس ہوتا ہے کہ نصف آبادی بھیک مانگنے جیسے منافع بخش کاروبار میں ملوث ہے۔