بدھ,  23 اکتوبر 2024ء
ایبسولوٹلی یس باس

شہریاریاں۔۔۔ تحریر: شہریار خان

فرق صرف یہ پڑا ہے کہ مولانا فضل الرحمان پہلے مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک چلا رہے تھے اور اب وہ مسلم لیگ ن کے خلاف انتخابی دھاندلی ہونے کا نعرہ لے کر تحریک چلا رہے ہیں، اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ بندہ بہت مستقل مزاج ہے۔ صرف حکومت بدلی ہے مگر مولانا کا موقف اب بھی وہی ہے۔۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 77سال سے انتخابات کا طریق کار یہی رہا ہے۔ ایک مرتبہ انتخابات دھاندلی سے پاک ہوئے تو اس کا نتیجہ بہت بھیانک نکلا۔

اس لیے یہ طے کر لیا گیا کہ اب ملک کو ٹوٹنے سے بچانا ہے تو انتخابات کو شفاف بننے سے روکنا ہے۔۔ دیکھیں ناں یہ تو ملکی انتخابات کی بات ہے، ہمارے راولپنڈی اسلام آباد میں سپورٹس جرنلسٹس کی تنظیم میں بھی جب جب انتخابات ہوئے ہر ہارنے والے نے ماشااللہ اپنے اپنے دھڑے قائم کر لیے اور اب اس تنظیم کی اتنی شاخیں ہیں کہ حبیب بینک بھی شرما جاتا ہے۔۔ ہم تو پھر بھی ملکی انتخابات کی بات کرتے ہیں، یہاں ہم مزید” شاخوں ” کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

چلیں یہاں مولانا فضل الرحمان احتجاج کریں تو بات سمجھ بھی آتی ہے کہ وہ انتخابی سیاست میں اپنا مقام رکھتی ہے مگر یہاں جماعت اسلامی بھی انتخابی دھاندلی پر شور مچاتی ہے۔ ہر مرتبہ انتخابات کے بعد جہاں پارلیمانی جماعتیں احتجاج کرتی ہیں وہاں جماعت اسلامی بھی احتجاج کرتی دکھائی دیتی ہے، چلیں کوئی بات نہیں یہ سمجھیں کہ یہ بھی مستقل مزاج ہیں۔

پاکستان کو قائم ہوئے اب 77برس گزر چکے ہیں یہاں کوئی فرق نہیں پڑا۔۔ 1954 میں ایوب خان کو حکومت میں آنے کا ایسا چسکا لگا کہ پھر یہ چسکا نئے آنے والوں کو بھی پڑتا گیا۔۔ فرق پڑا ہے تو صرف اتنا کہ آج ایوب خان کا پوتا عمر ایوب خان بھی سیاست میں فوجی مداخلت کے خلاف تقریر کرتے ہیں۔۔ بہت بھلے لگتے ہیں جب وہ آمرانہ اقدامات کو برا بھلا کہتے ہیں۔

فرق تو یہ بھی پڑا ہے کہ امریکی مداخلت کے خلاف آواز اٹھانے والی جماعت پی ٹی آئی اب لابنگ کر کے امریکا کو پاکستانی معاملات میں مداخلت کے لیے آمادہ کر رہی ہے۔

فرق تو یہ بھی پڑا ہے کہ ایبسولوٹلی ناٹ کا نعرہ لگانے والے آج سر خم تسلیم کیے بیٹھے ہیں مگر حکومت وقت تیار نہیں ہو رہی ہے۔۔اب شہباز شریف حکومت کی جانب سے امریکی کانگریس کو ایبسولوٹلی ناٹ کہہ دیا گیا ہے بلکہ پارلیمنٹ نے بھی قرارداد کے ذریعے ایبسولوٹلی ناٹ کا پیغام بھیجا مگر سنی اتحاد کونسل کی کھال پہنے پی ٹی آئی ارکان نے اس قرارداد کی مخالفت کی اور حکومتی جماعتوں کو امریکی مداخلت کے خلاف آواز اٹھانے پر سخت سست کہا۔

امریکی مداخلت کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینے والے بضد دکھائی دئیے کہ مداخلت ہونی چاہیئے، ان کا کہنا تھا کہ قیدی نمبر 420 جب وزیر اعظم تھا تو امریکا نے مداخلت کی جو ہمارے معاملات میں دخل اندازی تھی جبکہ اب پاکستانی انتخابات کے حوالہ سے امریکی کانگریس کی قرارداد ہمارے مخالفین کے خلاف ہے اس لیے یہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت نہیں ہے۔

جب ان سے پوچھا جائے کہ شہباز شریف کی حکومت کو کیوں ہٹایا جائے اور کیا یہ پاکستانی معاملات میں مداخلت نہیں؟۔۔ تو پی ٹی آئی راہنماؤں کا مانناہے کہ چونکہ امریکی کانگریس نے یہ قرارداد صرف انتخابی معاملات میں ہونے والی گڑبڑکے حوالہ سے ہے تو یہ مداخلت نہیں ہے، یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اپنے ملکی معاملات پر امریکا میں لابنگ فرم کے ذریعے ایسی قرارداد لا سکتے ہیں۔

امریکا میں سابق سفیر کے ساتھ امریکی محکمہ خارجہ کے عہدیدار کے ساتھ ہونے والی گفتگو چونکہ خفیہ تھی اس لیے وہ مداخلت نہیں مگر امریکی کانگریس نے پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں پی ٹی آئی کے تحفظات پر جو قرارداد پیش کی ہے وہ کھلم کھلا کی ہے اس لیے اسے مداخلت نہیں کہا یا سمجھا جائے بلکہ یہ تو حلال کام ہے۔ اس پر اعتراض کرنے والوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔

اگر آپ اس کو بودی دلیل کہیں گے تو پھر یقینناً آپ پٹواری ذہنیت رکھنے والے لفافہ ہوں گے۔۔ ایسا سنتے ہی جو بھی اس امریکی قرارداد کی مخالفت کرتا ہو وہ بھی کہہ اٹھتا ہے کہ یہ مداخلت نہیں اور اگر مداخلت ہے بھی تو خالصتاً حلال اور صاف ستھری مداخلت ہے۔
مگر کیا کریں ہم صحافی ہیں ہم تو سوال اٹھاتے ہیں اور اٹھاتے ہی رہیں گے کہ جناب اگر کل آپ کی حکومت آپ کے بقول امریکا نے ختم کروائی تو اب امریکا سے ہی کیوں آپ کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں، آپ کا بیانیہ یا کل غلط تھا یا پھر آج غلط ہے۔
آپ کا لیڈر تقریر اچھی کرتا ہو گا، وہ پرچیاں نہیں پڑھتا ہو گا لیکن اس کے دور میں عوام کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔۔ اس نے امریکی دورے سے واپسی پر اپنے دورے کو ورلڈ کپ جیتنے سے زیادہ بڑی کامیابی قرار دیا تھا۔ میرا ماننا یہ ہے کہ آپ بھلے لکھی ہوئی پرچی پڑھ لیں مگر بونگیاں نہ ماریں۔
آپ کا احتجاج اگر اپنے قائد کی رہائی کے بجائے اگر مہنگائی، بیروزگاری کے خلاف ہو گا تو عام آدمی بھی آپ کے ساتھ ہو گا۔۔ مگر کیا کیجیے کہ آپ تمام لیڈرز کی تقریر میں صرف یہ ہوتا ہے کہ ملک کا پہیہ صرف اسی صورت چلے گا جب آپ کا قائد جیل سے رہا ہو گا، تو جناب قبرستان ایسے بہت سے ناگزیر افراد سے بھرے ہوئے ہیں جنہیں خود اور ان کے ماننے والوں کو یہ زعم تھا کہ ان کے بغیر شاید اس دنیا کا نظام چلنا ممکن نہیں ہو گا لیکن وہ نہیں رہے اور دنیا ابھی بھی قائم ہے۔

یہ نہیں ہو سکتا کہ جو کام آپ کے لیے حلال ہو وہ باقیوں کے لیے حرام ہو۔۔ اگر کل بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف کے خلاف مقدمات درست تھے تو آج آپ کے خلاف مقدمات بھی درست ہیں۔ اگر کل پاکستان کی حکومت میں تبدیلی کی خواہش کا اظہار مداخلت تھی تو آج پاکستان کے انتخابات کے حوالہ سے قرارداد بھی مداخلت ہی ہے، ماضی کے حوالہ سے اپنی سمت درست کر کے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔

کل تک آپ کہتے تھے پی ڈی ایم حکومت کو اسٹیبلشمنٹ لائی ہے آج آپ کہتے ہیں مذاکرات اسٹیبلشمنٹ سے ہی کیے جائیں گے تو بات جمتی نہیں۔۔ جو کام کسی اور کے لیے حرام ہے وہ آپ کے لیے حلال کیسے ہو گا؟۔۔ اپنی سمت درست کیجئے۔۔ وقت پڑنے پر ایبسولوٹلی یس باس کہنے کے بجائے موقف ایک ہی رکھیں تو کام بنے گا۔

مزید خبریں