بدھ,  23 اکتوبر 2024ء
شدت پسندوں کے خلاف عزم استحکام آپریشن کا اعلان

وزیر اعظم شہباز شریف نے شدت پسندوں کے خلاف ایک نیا عزم استحکام آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا ہےمیڈیا رپورٹس کے مطابق رواں کے سال کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف 22714آپریشن کئے جس میں فوج کے 111جوان اور افسر شہید ہوئے جبکہ 354 دہشت گردجہنم واصل ہوئے ۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے 1063واقعات ہوئے پاک فوج ہر روز 126آپریشن کررہی ہے، ہر گھنٹے میں پانچ آپریشن میں پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف لڑتی ہے ،روزانہ 126اور ہر گھنٹے میں5آپریشنز اورشہادتوں کے باوجود دہشتگردی کے واقعات کا مطلب ہے کہ ان کی مالی معاونت ہورہی ہے انھیں وسائل فراہم کئے جارہے ہیں تاکہ ملک میں جاری دہشتگردی ختم نہ ہو۔عزم استحکام آپریشن پرحزب اختلاف کی جماعتوں سمیت متعدد سیاسی جماعتوں کے علاوہ خاص طور پر قبائلی عمائدین اور عوام نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے ڈیمانڈ کی ہے کہ عزم استحکام آپریشن کی منظوری پارلیمان سے لی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیااس سے پہلے کبھی کسی آپریشن کی منظوری پارلیمان سے لی گئی ہے۔

پارلیمان کو اعتماد میں لینے اور بریفنگ دینے کی روایت بھی موجود ہیں۔ عسکری قیادت نے بھی اہم مواقع پر آکر پارلیمان کو بریفنگ دی ۔ لیکن آج تک کبھی آپریشن یا بریفنگ کے لیے پارلیمان سے منظوری نہیں لی گئی۔ کیا اپوزیشن جماعت تحریک انصاف سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ جب آپ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے‘ ان کے ساتھ سیز فائر کر رہے تھے تو کیا آپ نے پارلیمان سے منظوری لی تھی۔ پارلیمان کو بریفنگ ضرور دی گئی تھی لیکن منظوری کی کوئی روایت نہیں۔ یہ حکومت کا فیصلہ ہوتا ہے، حکومت چاہے تو مشاورت کرے ‘چاہے تو نہ کرے۔ دہشتگردی کے خلاف ایسا پہلی بار نہیں کہ پاکستان میں آپریشن کا آغاز کیا گیا ہو۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران کئی بڑے اور چھوٹے آپریشنز ملک میں جاری رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر بڑے فوجی آپریشنز سابق فاٹا کے مختلف علاقوں میں مختلف ادوار میں کیے گئے۔2007 میں خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف پہلا بڑا فوجی آپریشن ’راہ حق‘ کے نام سے شروع کرایا۔2009 میں سوات میں سکیورٹی کی صورت حال ایک بار پھر اس وقت خراب ہو گئی جب ملا فضل اللہ منظر عام پر آئے۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں فوج نے ’راہ راست‘ نامی آپریشن شروع کیا جو تین ماہ تک جاری رہا۔جنوبی وزیرستان میں 2009 میں آپریشن ’راہ نجات‘ شروع کیا گیا جبکہ 2012 میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فوجی آپریشن ’ضرب عضب‘، جنرل راحیل شریف کی قیادت میں شروع کیا گیا۔2016 میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی کمان سنبھالی تو آپریشن ’رد الفساد‘ کے نام سے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن شروع ہوا اور اس کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیلایا گیا تھا۔ ماضی میں کیے جانے والے فوجی آپریشنز کے بعد پاکستان کو یہ توقع نہیں تھی کہ ملک میں دہشتگردی ایک بار پھر بڑھے گی اور حال ہی میں اعلان کردہ آپریشن ’عزمِ استحکام‘ فوج کی نہیں بلکہ حکومت کی ضرورت ہے۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ملک میں امن و امان کے قیام اور دہشتگردی کی نئی لہر کے خاتمے کے لیے شروع ہونے والے فوجی آپریشن پر سیاسی جماعتوں اور قبائلی عمائدین سے مشاورت جاری رہے گی۔

عزم استحکام آپریشن ایسے سیاسی اور مذہبی گروہوں کے خلاف ہے جو ملک میں عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو اقلیتوں کے ساتھ زیادتی اور ان کے خلاف نفرت پھیلانے والے گروپ اس میں شامل ہیں۔ حال ہی میں سرگودھا میں جو ہوا وہ اس کی بنیاد ہے۔ جہاں ایک مسیحی کو مشتعل ہجوم نے مار دیا ہے۔ اسی طر ح سوات میں توایک مسلمان کو مشتعل ہجوم نے مار دیا۔ اسی لیے عزم استحکام آپریشن کے اعلان کے فوری بعد قومی اسمبلی میں وزیر دفاع نے اقلیتوں کے تحفظ کی بات کی ہے۔ اور پھر وفاقی وزیر قانون نے سرگودھا اور سوات کے واقعات کی مذمت کی قرارداد پیش کی۔اس لیے یہ واضح اعلان ہے کہ عزم استحکام آپریشن میں اقلیتوں کا تحفظ ایک بنیادی نقطہ ہے۔ مشتعل ہجوم کا جو رواج زور پکڑ رہا ہے اس کے خلاف عزم استحکام آپریشن ہے۔ پاکستان کے امریکا میں ایلچی مسعود خان نےامریکا پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کو چھوٹے ہتھیار اور جدید آلات فراہم کرے تاکہ آپریشن عزمِ استحکام کو کامیاب بنایا جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق امریکا واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک ولسن سینٹر میں امریکی پالیسی سازوں، اسکالرز، دانشوروں، کارپوریٹ رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’پاکستان نے دہشت گردی کے نیٹ ورکس کا قلع قمع کرنے کے لیے آپریشن عزمِ استحکم کا آغاز کیا ہے، اس کے لیے ہمیں جدید ترین چھوٹے ہتھیاروں اور مواصلاتی آلات کی ضرورت ہے۔سوال و جواب کے سیشن کے دوران، انہوں نے وضاحت کی کہ آپریشن عزم استحکام تین اجزا پر مشتمل ہے: نظریاتی، معاشرتی اور آپریشنل۔ انہوں نے کہا کہ پہلے دو مرحلوں پر کام شروع ہو چکا ہے اور تیسرے مرحلے پر جلد عمل درآمد ہو گا۔

مسعود خان نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور امریکا کو مضبوط سیکورٹی روابط برقرار رکھنے، انٹیلی جنس تعاون کو بڑھانے، جدید فوجی پلیٹ فارمز کی فروخت دوبارہ شروع کرنی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپریشن عزمِ استحکم دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر علاقائی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے جس سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کو بھی خطرہ لاحق ہے۔عزم استحکام آپریشن ایسے سیاسی اور مذہبی گروہوں کے خلاف ہے جو ملک میں عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔ عزم استحکام آپریشن نیشنل ایکشن پلان کا تسلسل ہے جس میں دہشتگردی کی روک تھام کے لئے کثیرالجہتی پالیسی ترتیب دی جائے گی، منشیات اسمگلنگ کی روک تھام اور دہشتگردوں کو سزائیں دلوانے کے لیے موثر قانون سازی کرکے دہشتگردوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ اسمگلنگ اور منشیات کا پیسہ دہشتگردی میں استعمال ہورہا ہے، دہشتگرد خوارج ہیں، مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ آپریشن عزم استحکام کے ذریعے اسمگلنگ اور منشیات کی بیخ کنی کی جائے گی، امن کے دیرپا قیام کے لئے موثر حکمت عملی ضروری ہے ذرائع نے بتایا کہ ان غیر قانونی ذرائع آمدنی سے دہشت گردوں کی مالی اعانت ہوتی ہے۔ عزم استحکام آپریشن کے خدو خال ابھی واضح نہیں ہیں۔ کیا یہ کوئی فوجی آپریشن ہوگا لیکن دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشن تو اس وقت بھی جاری ہیں۔

اس لیے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے لیے فوج کو کسی نئی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ تحریک انصاف کا اس تناظر میںیہ موقف درست نہیں کوئی نیا فوجی آپریشن شروع نہیں کیا جارہا ہے۔ اس کے اہداف مختلف نظر آرہے ہیں ان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک سابقہ فاٹا میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی بات ہے تو وہ تو تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی جاری تھا اور اس وقت بھی جاری ہے۔ اور اگر عزم استحکام آپریشن شروع نہ بھی کیا جائے تب بھی وہ جاری ہے۔ یہ بات تحریک انصاف کو بھی پتہ ہے کہ سابقہ فاٹا میں جاری آپریشن عزم استحکام کا حصہ نہیں ۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ وہاں ایک لڑائی ہو رہی ہے اور فوج ایک لڑائی لڑ رہی ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ سابقہ فاٹا میں دہشت گرد افغانستان سے داخل ہوتے ہیں اور فوج پر حملہ کرتے ہیں۔ وہاں دہشت گردوں کا ٹارگٹ سول ادارے نہیں‘ اب تو پولیس کو بھی نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ لڑائی پاک فوج سے ہے۔ دہشت گردوں کو علم ہے کہ اگر فوج علاقہ خالی کر دے تو وہ فوری طور پر علاقہ پراپنا کنٹرول قائم کر لیں گے۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف یہ نعرے تو لگا رہی تھی کہ فاٹا میں فوجی آپریشن بند کیا جائے کوئی ان سے یہ سوال بھی کر لے کہ اگر فوج فاٹا سے چلی جائے تو کیا گنڈا پور اپنی حکومتی رٹ فاٹا پر قائم رکھ سکیں گے؟ اس لیے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ فاٹا میں کوئی آپریشن نہیں چل رہا۔ بلکہ دہشت گردو ں کے ساتھ لڑائی چل رہی ہے۔ افغانستان سے دہشت گرد سابقہ فاٹا میں داخل ہوتے ہیں۔

وہ سرحدی باڑ کو توڑتے ہیں اور پاکستان میں داخل ہوکر دہشت گردی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں نصب باڑ کی حفاظت کرنا فوج کی ڈیوٹی ہے ایسا نہیں ہو سکتا کہ سرحد کی کھلی خلاف ورزی ہو‘ دہشت گرد فوجی پوسٹوں پر حملے کرتے ہیں‘ بارودی سرنگیں بچھاتے ہیں‘ ہمارے فوجی افسر اور جوان شہید ہوتے رہیں اور فوج خاموش بیٹھی رہے۔ فوج نے ہر صورت اور ہر قیمت پر ملک اور سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ دہشت گردوں کو پکڑنے کا کام بھی فی الحال فوج ہی کر رہی ہے۔ لیکن یہ سوال اہم ہے کہ کیا پولیس یہ کام کر سکتی ہے؟ ماضی میں دہشت گردوں نے جس طرح پولیس کو نشانہ بنایا تھا، اس کے بعد کے پی پولیس میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر سکے۔

مزید خبریں