جمعه,  25 اکتوبر 2024ء
سوات جیسےواقعات کی روک تھام کے لیےریاست کی ذمہ داری اور ہمارا رویہ………..

پاکستان میں سوات جیسےواقعات کی روک تھام کے لیےمزید سخت اقدامات اور قوانین سازی وقت کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کا پُرامن چہرہ خراب کرنے والوں کوروکا جا سکے
اگر ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری کرتی تو سوات جیسا واقعہ رونما نہ ہوتا,
زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں پراسیکیوشن سسٹم جدید دور کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ,پاکستان فوجداری نظامِ انصاف بھی بہت کمزور ہے اور ملزموں کو معمولی فرق پر آسانی سے بری کر دیا جاتا ہے۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 میں ‘توہین مذہب’ پر بات کی گئی ہے۔ اس قانون کے مطابق کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کی توہین یا بے حرمتی پر 2 سال قید یا جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ 295 اے کے تحت کسی بھی پاکستانی کے مذہبی عقائد اور مذہبی جذبات کی توہین نہیں کی جاسکتی۔ اس جرم کی سزا 10 سال قید یا جرمانہ ہے۔ دفعہ 295 بی کی رو سے قرآن کریم کی توہین کی سزا عمر قید ہے اور 295 سی کے تحت توہین رسالت کی سزا ‘سزائے موت’ ہے۔ ساتھ ہی 296 میں کسی بھی مذہبی اجتماع میں رکاوٹ ڈالنے کی سزا ایک سال قید ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ٹھوس ثبوتوں کے بغیر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی ,ماضی میں بہت سےواقعات رپورٹ ہوئے لیکن کسی کو سزا نہیں دی گئی , پاکستان میں سوات جیسے واقعات پر سخت کارروائی کی ضرورت ہے سوات پولیس نے گزشتہ روز مدین میں مبینہ طور پر قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام میں زیر حراست ملزم کو زندہ جلانے کے واقعے پر49 افراد کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آر) درج کی پولیس نے4 روز قبل مدین میں مبینہ طور پر قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام میں زیر حراست ملزم کو زندہ جلانے کے واقعے میں ملوث 14 ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق سوات کے علاقے مدین میں توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم نے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی سیاح شہری کو قتل کردیا تھا۔ سوات پولیس کے مطابق گرفتار تمام افراد کے نام ایف آئی آر میں شامل ہیں، گرفتار کیے جانے والوں میں مرکزی ملزم بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق مشتعل ہجوم نے سوات کے مدین پولیس تھانے میں گھس کر ملزم کو زندہ جلانے کے بعد اس کی لاش، پولیس اسٹیشن اور پولیس کی گاڑی کو آگ لگادی۔

یاد رہے کہ توہین مذہب کے شبہ میں حالیہ ہفتوں میں یہ دوسرا واقعہ ہے جب مشتبہ شخص کو قتل کیا گیا، گزشتہ ماہ سرگودھا میں اسی قسم کے الزامات پر ایک شخص کو قتل کیا گیا تھا۔ صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا کی مجاہد کالونی میں مشتعل ہجوم کی جانب سے تشدد کا شکار مسیحی شہری 9 روز بعد انتقال کرگیا تھا ۔ 25 مئی کو سرگودھا پولیس نے بے حرمتی کے الزامات پر ایک شخص کو مشتعل ہجوم سے بچایا تھا جب کہ ہجوم نے مجاہد کالونی میں مسیحی برادری کے دیگر افراد کے گھروں پر حملہ کردیا گیا تھا۔ لوگ جمع ہوئے اور متاثرہ شخص کے دروازے پر دستک دی، جب وہ باہر آیا تو ہجوم نے اس پر چاقو اور مکوں سے حملہ کردیا، ہجوم نے مسیحی خاندان کی جوتوں کی دکان کو آگ لگادی اور دروازوں اور دیواروں کو نقصان پہنچانے کے بعد ان کے گھروں میں گھسنے کی کوشش کی۔ بعد ازاں 44 نامزد اور 300 سے 400 سے نامعلوم ملزمان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جب کہ 100 سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا گیا، پولیس نے مسیحی شخص کے خلاف بھی توہین مذہب کا مقدمہ درج کرلیا تھا۔ متاثرہ شخص کے بھتیجے نے بے حرمتی کے الزامات کی تردید کی تھی۔ واقعے کے دن متاثرہ شخص کو ریسکیو کرنے کےبعد پولیس نے ملٹری ہسپتال منتقل کردیا تھا سوشل میڈیا پر وائرل پوسٹ میں کہا گیا تھا کہ متاثرہ شخص اور اس کا بیٹا راولپنڈی کے ہسپتال میں مر گئےتھے، سوات میں مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ کچھ افراد نے بازار میں اعلان کیا کہ ایک شخص نے توہین مذہب کا ارتکاب کیا ہے اور پھر اس کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا، تاہم کچھ ہی دیر بعد سوات کے مشہور سیاحتی مقام مدین کی مساجد سے چند اعلانات کیے گئے جس نے لوگوں کو مشتعل کردیا۔

عینی شاہدین کے مطابق ہجوم نے پولیس اسٹیشن کا رخ کیا اور پولیس سے مطالبہ کیا کہ وہ مشتبہ شخص کو ان کے حوالے کردیں، پولیس کے انکار پر وہ زبردستی اسٹیشن میں داخل ہوئے جس پر پولیس اہلکار اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگ گئے، تاہم کشیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے مزید نفری طلب کی گئی۔سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہجوم کی جانب سے پولیس اسٹیشن کو آگ لگائی جارہی ہے، اور مشتبہ شخص پر پیٹرول جھڑک کر آگ لگائی جارہی ہے۔ مدین پولیس اسٹیشن میں ریجنل پولیس آفیسر محمد علی گنڈا پور نے کہا ’ہم نے واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہیں اور اس حوالے سے معلومات اکٹھی کی جارہی ہیں، ابتدائی طور پر دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، ایک مقتول کے خلاف اور دوسری تھانے میں گھسنے اور توڑ پھوڑ کرنے پر ہجوم کے خلاف در ج کی گئی ہیں۔

سوات کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) ڈاکٹر زاہد اللہ خان نےبتایا کہ مدین اور سوات میں صورتحال معمول پر اور پر امن ہے، ہم نے علاقے میں اضافی سیکیورٹی تعینات کر دی ہے۔

مدین کے ایس ایچ او اسلام الحق نے بتایا کہ تفتیش کا عمل ابھی جاری ہے مقتول کی شناخت محمد سلیمان کے نام سے ہوئی، جو سیالکوٹ کا رہائشی ہے اور اس نے اپنی شناخت سنی مسلمان کے طور پر کی تھی جب اسے تھانے لایا گیا تھا اور اس نے مبینہ فعل کے ارتکاب سے انکار کیا تھا، تاہم اس شخص کو لانے کے چند لمحوں بعد ایک ہجوم پولیس اسٹیشن پہنچ گیا۔ایس ایچ او نے مزید کہا کہ جب مجھے خطرہ محسوس ہوا تو میں نے اس شخص کو پولیس سرونٹ کوارٹر میں منتقل کیا لیکن ہجوم تھانے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا اور اسے تلاش کرنے کے بعد کوارٹر میں آیا اور اسے اپنے ساتھ لے گیا۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ بیان میں کہاگیا کہ علی امین گنڈاپور نے آئی جی کو صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھانے کی ہدایت اور شہریوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔

یاد رہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے حملے ہمارے لیے باعث شرمندگی ہیں، اس پر سب کو اتفاق رائے ہونا چاہیے۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ یہاں اقلیتوں کو قتل کیا جارہا ہے، یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے، ہم اس کی وجہ سے شرمندہ ہورہے ہیں پاکستان میں کوئی مذہبی اقلیت محفوظ نہیں، ہم مسلمانوں کے اندر جو چھوٹے فرقے ہیں وہ تک محفوظ نہیں، یہ ایسی بات ہے کہ سب کو شرمسار ہونا چاہیے وزیر نے بتایا کہ ہم ایک قرارداد لانا چاہتے ہیں تاکہ اقلیتیں محفوظ رہ سکیں ، یہ ملک سب کا ہے،اقلیتوں کئ قتل کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، ہمارا مذہب بھی اس کی اجازت نہیں دیتا، عزم استحکام کی ایپکس کمیٹی کمیٹی کو بحال کر رہے ہیں، خیال رہے کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ سوات میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک اور شہری کے قتل کا واقعہ کے نتیجے میں آج پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے، پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات کے محرکات کا جائزہ لے کر قومی لائحہ عمل دے کہ ہم کس طرح سے معاشرے میں قانون کی بالادستی نافذ کریں۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہت اہم مسئلے کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ اس حوالے سے میری اپنی ذات بھی متاثر رہی ہے، سوات میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک اور شہری کے قتل کا واقعہ پیش آیا ہے، اس کے نتیجے میں آج پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور خاص طور پر ہمارے ہمسائے ملک بھارت میں جہاں مسلمانوں کو بھی ہجوم کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا جا تا ہے، اس کا میڈیا بھی ہمارا مزاق اڑا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ ایک واحد واقعہ ہوتا تو شاید اس کو نظر انداز کر سکتے تھے لیکن یہ ایک تسلسل ہے، آپ نے دیکھا کہ سیالکوٹ میں اس طرح کے واقعہ پیش آیا۔

جڑانوالہ میں اس طرح کا واقعہ پیش آیا، سرگودھا میں اسی قسم کا واقعہ ہوا، اچھرہ لاہور میں اسی طرح کے واقعے سے ہم بچ نکلے، میں خود اپنی ذاتی مثال دینا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک نئی زندگی دی جب ایک جنونی میری زندگی لینے کی کوشش کی، اور وہ گولی آج بھی میرے جسم میں موجود ہے۔ میری اس ایوان سے یہ گزارش اور استدعا ہے کہ ہمیں اس واقعہ کا نوٹس لینا چاہیے کیونکہ ہمارا معاشرہ تباہی کے ایسے دہانے پر پہنچ چکا ہے جہاں دین کے نام کو استعمال کر کے اسٹریٹ جسٹس، موب لنچنگ کے ذریعے آئین، قانون اور ریاست کے تمام بنیادی اصولوں کو اپنے پیروں تلے روندتے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام جس نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ کافر کی لاش کی حرمت کا احترام کیا جائے، ہم نہ صرف موب لنچنگ سے لوگوں کو مارتے ہیں بلکہ ان کی لاشوں کو آگ لگا کر تماشہ دیکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بارے میں ایک روایت ہے جس کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ ہم کسی مشن پر جا رہے تھے تو کوئی دو دشمن تھے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اگر تم ان دو لوگوں کو پاؤ تو انہیں جلادینا، راوی نے بتایا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہ بات واپس لیتا ہوں، انہیں قتل کردینا، جلانے کا حق صرف اللہ کو ہے، صرف خدا کی ذات کسی کو جلا سکتی ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ آپ دیکھیں کہ ہم یہاں کسی کو جلا کر ، لوگوں کو زندہ مار کر، ان کی لاشوں کو جلا کس قسم کا رویہ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں جبکہ ہم جنگ کے اندر بھی کسی کی لاش کی بحرمتی نہیں کرسکتے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے، اگر ہم نے اس کا نوٹس نہیں لیا تو یہ انکارکی ہمارے ملک کے اندر ہمیں جلا دے گی۔ اس وقت میں یہ بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہم کبھی سوچتے ہیں کہ ہم دنیا میں کہاں کھڑے ہیں، دنیا میں ایک ارب مسلمان ہیں، ایک کروڑ کی آبادی ہے اسرائیل کی، اس نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور ہم بے بس ہیں، کیوں ؟ اس لیے کیونکہ ہم تعلیم میں دنیا میں سب سے پیچھے ہیں، صحت میں سب سے پیچھے ہیں، سائنس میں سب سے پیچھے ہیں، دنیا میں امن میں سب سے پیچھے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم سب توہین مذہب کا پرچم اٹھا کر کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن کیا کبھی کسی نے اس بات کا بھی سوچھا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ جو ملاوٹ کرتا ہے، وہ ہم میں سے نہیں، ہم نے جو دین کو استعمال کیا ہے میں معاشرے میں غندہ گردی کے لیے، میں سمجھتا ہوں کہ علما کا فرض ہے کہ وہ اس کا نوٹس لیں اور خاص طور پر اس ایوان کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو ان تمام واقعات کے محرکات کا جائزہ لے کر ایک قومی لائحہ عمل دے کہ ہم کس طرح سے ایک مہذب معاشرے کے طور پر قانون کی بالادستی کو نافذ کریں۔یاد رہے کہ 25 فروری کولاہور میں عربی حروف تہجی والا لباس پہننے پر مشتعل ہجوم نے خاتون پر توہین مذہب کا الزام لگایا تھا، خاتون پولیس افسر کی بروقت کارروائی نے صورتحال کو نہ صرف بگڑنے سے بچایا بلکہ خاتون کو بھی مشتعل ہجوم سے بحفاظت نکال لیا تھا۔

پولیس کے مطابق خاتون اپنے شوہر کے ہمراہ شاپنگ کرنے گئی تھی، خاتون نے ایک لباس پہنا ہوا تھا جس میں کچھ عربی حروف تہجی لکھے ہوئے تھے جس پر لوگوں نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا اور خاتون سے فوری طور پر لباس کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیاتھا۔ ہجوم نے الزام عائد کیا تھا کہ خاتون کے لباس کے پرنٹ پر قرآنی آیات لکھی ہیں۔ اس دوران اچھرہ بازار میں لوگوں کی بڑی تعداد اکٹھا ہو گئی اور مشتعل ہجوم نے خاتون کو ہراساں کرنا شروع کر دیا تھا۔اس صورتحال میں پنجاب پولیس کی خاتون پولیس آفیسر اے ایس پی گلبرگ شہر بانو نقوی 15 ہیلپ لائن کی کال پر جائے وقوع پہنچی، ان کی جانب سے بروقت کارروائی نے صورتحال کو نہ صرف بگڑنے سے بچایا بلکہ خاتون کو بھی مشتعل ہجوم سے بحفاظت باہر نکال لیاتھا۔

یاد رہے کہ21 اگست 2022 کو حیدرآباد میں توہین مذہب سے متعلق ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں قرآن پاک کی مبیّنہ بے حرمتی کے بعد شہر کے مختلف علاقوں میں شدید کشیدگی پھیل گئی۔ اس واقعے کے شکایت کنندہ کے مطابق اسے پتا چلا تھا کہ رابی پلازہ میں کسی نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے۔ معاملے کا پتا لگانے کے لیے وہ پلازہ کے اندر گئے تو معلوم ہوا کہ قرآن پاک کے نسخے کو کسی نے جلا دیا ہے۔ انہوں نے وہاں موجود سینیٹری ورکر سے پوچھا کہ کیا مقدس کتاب انہوں نے جلائی ہے؟ اس پر سینیٹری ورکر نے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ جلے ہوئے اوراق اور سینیٹری ورکر کو لے کر تھانے پہنچے اور پولیس کے حوالے کردیا تھا۔ توہین مذہب کا ایک اور واقعہ پچھلے سال جنوری 2022 میں پیش آیا تھا۔ کراچی کی ایک خبر مختلف واٹس ایپ گروپوں کا حصہ بنی جس میں کہا جارہا تھا کہ ایک مقامی اسپتال کی 2 نرسوں کے درمیان جھگڑا بڑھا اور ایک نرس نے دوسری نرس پر توہین مذہب کا الزام عائد کردیا۔ اچھی بات یہ رہی کہ سماجی اداروں اور انتظامیہ کی معاملہ فہمی نے اس خبر کے نتیجے میں ہونے والا تصادم یا حادثہ بروقت روک لیا تھا وہ الزام درست نہیں تھا بلکہ غلط فہمی اور بدگمانی پر مبنی تھا یا آج کی زبان میں کہیں تو فیک نیوز پر مبنی تھا۔ ایف آئی آر بھی کٹی لیکن خبر کی تصدیق اور حقیقت جاننے کے بعد ایف آئی آر خارج کردی گئی۔ اسپتال انتظامیہ اور پولیس کی کارکردگی بھی قابلِ تعریف ہے اور میڈیا کا کردار بھی اہم رہا کیونکہ کئی ذرائع سے یہ خبر ملنے کے باوجود اسے چلانے سے پہلے تصدیق کی گئی۔ اگر سماجی اور انتظامی ادارے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے توحادثہ ہونا ناممکن نہیں تھا۔ ایسا ہی بروقت انتظام 14 فروری 2022کو فیصل آباد میں بھی کیا گیا تھا جبکہ 13 فروری 2022کو ہی خانیوال میں توہین مذہب کے الزام میں ایک فرد کی موت ہوچکی تھی۔ وہاں بھی پولیس نے اپنا کردار ادا کیا اور پاکستان کا پُرامن چہرہ خراب کرنے والی ایک اور خبر بننے سے بچا لیا تھا ۔ ہمارے ملک میں ہم نے دیکھا ہے کہ کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جہاں ہجوم کے ہاتھوں بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ وہ سری لنکن شہری کی ہجوم کے ہاتھوں موت ہو یا میاں چنوں میں ہونے والا واقعہ جس میں ذہنی مریض کو توہین مذہب کے الزام میں بے دردی کے ساتھ قتل کردیا گیا تھا۔ کوئی شخص اس کی توجیہ پیش نہیں کرسکتا تھا ۔ سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ ظلم ہے اور ناقابلِ معافی ہے۔ ان واقعات سے ملک میں مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہر واقعے کے بعد سرکاری سطح پر اس واقعہ کی مذمت کی جاتی ہے۔
تازہ ترین واقعات سے یہی سمجھ آتا ہے کہ اگر انتظامیہ اور سماجی ادارے اپنی ذمہ داری بخوبی ادا کریں تو ان حادثات سے بچا جاسکتا ہے۔ معاشرے کے سب کرداروں کو مل کر پہلے اس مرض کی جڑیں تلاش کرنی چاہئیں تاکہ مسئلے کو اس کی بنیاد سے حل کیا جاسکے۔

ہجوم کے ہاتھوں ہونے والی اموات کی تعداد جس تیزی سے بڑھ رہی ہے، اس کی روک تھام ضروری ہے۔ سرکاری سطح پر ہونے والی بیان بازی سے آگے بڑھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ہجوم ایک دم بپھر جاتا ہے اور اسے کنٹرول کرنا مشکل تر ہوجاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا بلکہ ایک پوری سوچ اور سوچی سمجھی ترکیب ہوتی ہے۔ جب کوئی شوشہ چھوڑا جاتا ہے تو بات اتنی سنگین نہیں ہوتی صرف سامنے والے کو چوٹ لگانی ہوتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بات ہوتے ہوتے قابو سے باہر چلی جاتی ہے تو پھر ہجوم کسی کی بات نہیں سنتا۔ ہمیں اب ان پہلوؤں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کے واقعات پے درپے کیوں ظہور پذیر ہورہے ہیں۔ اصل سوال تو یہی ہے کہ عام آدمی قانون کو کب ہاتھ میں لیتا ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب وہ پولیس اور نظامِ عدل پر یقین رکھنا چھوڑ دیتا ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں کجی ہے جس کی وجہ سے مجرم کو بچ جاتا ہے۔ کونسل آف سوشل جسٹس کی ہیومن رائٹس آبزرور 2022ء رپورٹ کے مطابق، پاکستان پینل کوڈ کے تحت2021ء میں کُل 84 افراد پر توہین مذہب کا الزام لگا جن میں 77 مرد، 6 عورتیں اور 1 مخنث شامل ہے۔ اس کے علاوہ 3 افراد کو توہین مذہب کے نام پر قتل کردیا گیا۔ اس میں ہجوم کے ہاتھوں مرنے والے سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا بھی شامل ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ سب سے زیادہ مذہبی تشدد کے 68 واقعات پنجاب کے جنوبی شہروں میں رونما ہوئے۔ رپورٹ میں پچھلے 34 سال کے ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 75 فیصد توہین مذہب کے کیسز پنجاب میں درج کیے گئے۔ مزید یہ کہ 45 مسلم، 25 احمدی اور 7 دیگر مذاہب کے افراد کو اس الزام کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی نہیں بلکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2021ء میں مذہب کی جبری تبدیلی کے کُل 78 واقعات سامنے آئے۔پے درپے ہونے والے واقعات کے بعد 25 فروری کو ہونے والے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں بتایا گیا کہ توہین مذہب کے الزام پر ہونے والے تشدد کے واقعات میں سوشل میڈیا اور نوجوانوں کا کردار سب سے زیادہ اہم رہا۔ ہجوم کی ویڈیو اور تصاویر کی جانچ پڑتال کے بعد عمروں کا تعین 18 سے 30 سال کیا گیا۔

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی توہین مذہب کے ملزم پر تشدد کرنا خلافِ شریعت قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کے واقعات میں ملوث ملزمان کو جلد سے جلد سزا ملنی چاہیے تاکہ عوام تک یہ پیغام جائے کہ قانون کو ہاتھ میں لینا درست نہیں۔ توہین مذہب کے حقیقی ملزمان کو سزا نہ ملنا بھی تشدد کے رجحان کو بڑھا رہا ہے۔ ہمیں بحیثیت مسلمان ان احکامات کا احترام کرنا چاہیے اور اپنی عبادت گاہوں اور تعلیمی اداروں میں ان احکامات کی ترویج کرنی چاہیے تاکہ عوام قانون کو ہاتھ میں لینے سے پہلے سوچیں کہ یہ اسلامی اقدار کی نفی ہے۔

مزید خبریں