بدھ,  23 اکتوبر 2024ء
کرکٹ ٹیم کی سرجری۔۔۔!!

شہریاریاں۔۔تحریر: شہریار خان

امریکا میں حارث رؤف کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ پر افسوس کا اظہار کافی نہیں۔۔ جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔یہ رویہ وہی نام نہاد شعور ہے جو اس معاشرے میں ففتھ جنریشن وار کے نام پر عام کیا گیا۔۔ سیاستدانوں کو گالیاں دی جائیں۔۔ انہیں روک کر وڈیو بنا کر بدتمیزی کرنا تو معمول بن ہی چکا تھا۔ اب کھلاڑیوں کی باری ہے۔

جو بچے نوے کی دہائی میں یا اس کے بعد پیدا ہوئے ہیں انہیں نہیں معلوم۔۔ کہ اخلاقیات کس چڑیا کا نام ہے، وہ ” باشعور” ہونے کے دعویدار ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ جسے وہ سچ سمجھتے یا مانتے ہیں اس کی قے وہ کسی بھی جگہ پر کر سکتے ہیں۔
کچھ لوگ اسے آزادی اظہار کہتے ہیں مگر یہ نہیں سمجھتے آپ کی آزادی وہاں ختم ہوتی ہے جہاں سے کسی کی ناک شروع ہوتی ہے۔ جہاں آپ کی انگلی کسی کی ناک کو چھو گئی وہاں آپ نے دوسرے کی آزادی میں خلل ڈالا ہے، یہاں ہم روز یہ کام کرتے ہیں اور فخریہ انداز میں اس کی وڈیوز بھی شیئر کرتے ہیں۔

نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، مریم اورنگزیب کے ساتھ کئی مرتبہ یہ واقعات پیش آئے، کئی ایسے پاکستانی نوجوان جو پوری زندگی میں شاید ایک یا دو مرتبہ پاکستان آئے ہوں گے انہیں پاکستان کے حالات کی اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ کسی کے ساتھ بھی یہ بدسلوکی کرتے ہیں اور اپنے اس عمل کو جائز بھی سمجھتے ہیں۔

مگر بات اب سیاست اور سیاستدانوں سے نکل کر کھیل اور کھلاڑیوں تک پہنچ گئی ہے۔۔ کسی بھی کھلاڑی کے کھیل کو ہدف تنقید بنانا درست ہے لیکن اس کے بیوی، بچوں، ماں باپ، بہن بھائیوں کا اس کھیل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
تنقید شائستگی کے ساتھ ہو تو وہ اصلاح کا باعث بن سکتی ہے لیکن اگر وہ گالم گلوچ پر مبنی ہو تو پھر حارث رؤف کا جواب بہت شریفانہ تھا۔ مجھے شاداب خان کے کھیل پر اور اسے ٹیم میں شامل کیے جانے پر شدید تحفظات ہیں کیونکہ موجودہ صورتحال میں اس کی ٹیم میں جگہ نظر نہیں آتی۔

بد قسمتی کے ساتھ ہم قوم نہیں بن سکے، ہم ایسا ہجوم بن چکے ہیں جسے کچھ عرصے بعد نیا نعرہ دے کر کسی بھی جگہ موڑ دیا جاتا ہے۔ یہ ہجوم تنقید کا مفہوم نہیں سمجھ پایا، یہ گالم گلوچ کو تنقید سمجھتے ہیں۔۔ ہم نے اعظم خان کے کھیل پر تنقید کرنے کے بجائے اس کے وزن اور جسم پر تنقید نہیں بلکہ بد زبانی کی۔۔

ہم اس حد تک تنقید میں آگے نکل گئے کہ ہم نے اعظم خان کی ہیئت پر میمز بنانے کے ساتھ ساتھ فحش گوئی بھی کی، اس کا اثر اعظم خان کی کارکردگی پر بھی ہوا، واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اسے اب معمول پر واپس آنے کے لیے شاید کسی ماہر نفسیات یا کونسلنگ کرنے والے کے پاس جانا پڑے۔

ایک بات بہت واضح ہے کہ اعظم خان کو معین خان کا بیٹا اور ندیم خان کا بھتیجا ہونے کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوا ہے، مجھے سپورٹس رپورٹنگ کرتے ہوئے تقریباً تیس سال ہو چکے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اعظم خان ایک بہت شاندار بیٹر ہے۔۔ رضوان کے ہوتے ہوئے وکٹ کیپر شاید وہ نہ بن پائے اور فیلڈنگ کے لیے اسے شاید گیری کرسٹن سے تربیت لینا پڑے لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ ایک شاندار بلے باز ہے اور اسے دباؤ سے باہر لانے کے بعد کھلایا جائے تو وہ بہترین کارکردگی دکھا سکتا ہے۔

ہماری قوم کا مزاج بن چکا ہے کہ ہم جیت جائیں تو دنیا کی بہترین ٹیم ہیں لیکن ہار جائیں تو فوری طور پر سب پر تنقید، جسے ہم بوبزی کنگ کہہ رہے تھے آج اسے ہی نکما کہنا شروع کر دیا ہے۔ بابر اعظم، محمد رضوان، عماد وسیم، محمد عامر، شاہین اور نسیم سب ہمارا فخر بھی ہیں اور ہمارا سرمایہ بھی۔

محمد عامر اور عماد وسیم کو قوم کے مزاج کا علم تھا انہوں نے پہلے ہی قومی ٹیم سے الگ ہونے کا عندیہ دے دیا کہ بجائے اس کے کہ آپ کو لوگ سڑک پر روک کر بدزبانی کریں اور برا بھلا کہیں۔۔ آپ ٹیم چھوڑنے کا اعلان کر دیں، لیگ کرکٹ میں آپ اچھا پرفارم کریں تو خود ہی سب کہیں گے کہ انہیں ٹیم میں واپس لے آئیں۔۔

ایک چیز کی ضرورت ہے کہ ہم بس ٹیم اور پی سی بی کو سیاست سے پاک کر دیں۔۔ ایک گروپ ہے جو صرف کپتان بابر اعظم کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ ایک چینل کے ڈائریکٹر سپورٹس کا چینل بھرپور انداز میں بابر اعظم کو ٹیم سے نکلوانے کے چکر میں ہے۔

صرف یہ ثابت کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ تنقید بابر اعظم پر کی جائے۔۔ تمام کھلاڑیوں کی کارکردگی کا ملبہ کپتان پر ڈالا جائے اور کھلاڑیوں سے کوئی سوال نہ کیا جائے۔۔ حالانکہ یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ صرف بابر اعظم کو ہی کپتان ہونا چاہیئے لیکن یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ جس طرح ذکا اشرف کے دور میں ورلڈ کپ کے دوران ہی بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹانے کا بیان دیا گیا۔۔وہ طریقہ بھی مناسب نہیں تھا اور اس کے نتیجہ میں شاہین آفریدی کو کپتان بنایا گیا وہ بھی درست نہیں تھا مگر چند دنوں بعد ہی شاہین آفریدی کو دوبارہ ہٹا دیا گیا یہ بھی مناسب نہیں تھا۔

اب پھر وہی صورتحال ہے کہ دو میچز ہارنے پر ہی چیئرمین پی سی بی اور وزیر داخلہ سینیٹر محسن نقوی جو کہ ایک میڈیا نیٹ ورک کے مالک بھی ہیں فوری طور پر ٹیم میں سرجری کرنے کا بیان داغ دیا۔۔ اس بیان سے پہلے سے بکھری ٹیم کا مزید مورال گر گیا۔

محسن نقوی ایک اچھے صحافی اور میڈیا مالک ہیں لیکن انہوں نے ٹیم سلیکشن سمیت بہت سے معاملات میں خود کو ملوث کر لیا ہے، سلیکشن کمیٹی ایسی بنائی گئی ہے جس میں کوئی بھی چیف سلیکٹر نہیں یعنی کسی کے پاس اختیار نہیں۔۔۔ ایسی سلیکشن کمیٹی کا بھی کوئی قصور نہیں۔

میرے خیال میں تو سرجری کرنا ہی ہے تو پہلے پی سی بی کی سرجری شروع کریں۔۔ پی سی بی سے غیر ضروری افراد کو نکالا جائے۔ محسن نقوی بھی میرے خیال میں خود کو کرکٹ افیئرز سے دور کر لیں اور صرف انتظامی امور پر توجہ دیں یا پھر خود کو پی سی بی سے الگ کر کے صرف وزارت داخلہ پر فوکس کریں، یہ وزارت کوئی پارٹ ٹائم جاب نہیں ہے بھرپور توجہ مانگتی ہے اسی طرح پی سی بی بھی فل ٹائم جاب ہے۔

مزید پڑھیں: شاہین آفریدی نے قومی ٹیم کی نائب کپتانی قبول کرنے سے معذرت کرلی

سرجری کرنا ضروری ہے مگر اس کا آغاز خود سے کریں اور ٹیم کو سیاست سے پاک کرنے کے لیے ایک کپتان کو نہیں بلکہ کپتانی کے جتنے امیدوار ہیں جنہوں نے گروپ بندی کر رکھی ہے انہیں بھی آرام کرنے دیں کیونکہ جسے سیاست کا شوق ہے اسے سیاست میں بھیجیں اور جو کھیلنا چاہتا ہے اسے ٹیم میں رکھیں۔ایسے شاید ہم آئندہ ورلڈ کپ کے لیے کوئی ٹیم تیار کر پائیں۔

مزید خبریں