اسلام آباد (اصغر علی مبارک)عوام دوست , متوازن بجٹ سے پاکستانی معیشت مستحکم ہونےکی امید ہے , لیکن ایم ایف کے ساتھ جاری میٹنگ کے تحت عوام دوست اور متوازن بجٹ سے امید ہے کہ حکومت کی نئی اقتصادی پالیسیوں کے تحت پاکستان کی معیشت کو فروغ ملے گا,وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اس معزز ایوان کے سامنے مالی سال 25-2024 کا بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے، فروری 2024 کے انتخاب کے بعد حکومت کا یہ پہلا بجٹ ہے اور میں وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی قیادت خصوصاً محمد نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری، خالد مقبول صدیقی، چوہدری شجاعت حسین، عبدالعلیم خان اور خالد حسین مگسی کی رہنمائی کے لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی اور معاشی چیلنجز کے باوجود پچھلے ایک سال کے دوران اقتصادی محاذ پر ہماری پیشرفت متاثر کن رہی ہے، ہم سب نے معاشی استحکام اور عوام کی بہتری کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے مل بیٹھنے کی بازگشت کئی بار سنی ہے ۔
آج قدرت نے پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پر چلنے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے، ہم اس موقع کو زائل کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔پچھلے سال جون میں آئی ایم ایف پروگرام اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا اور نئے پروگرام سے متعلق بہت غیریقینی کیفیت تھی, وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی اور معاشی چیلنجز کے باوجود پچھلے ایک سال کے دوران اقتصادی محاذ پر ہماری پیشرفت متاثر کن رہی ہے، ہم سب نے معاشی استحکام اور عوام کی بہتری کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے مل بیٹھنے کی بازگشت کئی بار سنی ہے ، آج قدرت نے پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پر چلنے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے، ہم اس موقع کو زائل کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال جون میں آئی ایم ایف پروگرام اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا اور نئے پروگرام سے متعلق بہت غیریقینی کیفیت تھی، نئے پروگعام میں تاخیر کافی مشکلات پیدا کر سکتی تھیں لیکن شہباز شریف کی سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا، اس پروگرام کے تحت لیے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں معاشی اصلاحات کی راہ ہموار ہوئی اور غیریقینی کی صورتحال اختتام کو پہنچی۔
سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ مئی میں مہنگائی کم ہو کر تقریباً 12فیصد پر آ گئی ، اشیائے خورونوش اب عوام کی پہنچ میں ہیں اور درپیش چیلنجز کو دیکھا جائے تو یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں اور آنے والے دنوں میں مہنگائی مزید کم ہونے کا امکان ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ ہم اس امید کے ساتھ ہوم گرون ریفارم ایجنڈے کو پختہ ارادے اور عزم کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں کہ پاکستان جلد ہی شمولیت اور پائیدار ترقی کے دور کی طرف لوٹ آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہر کوئی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ راستہ بھت کٹھن ہے اور ہمارے پاس آپشنز محدود ہیں مگر یہ اصلاحات کا وقت ہے، یہی وقت ہے کہ ہم اپنی معیشت میں نجی شعبے کو مرکزی اہمیت دیں اور چند افراد کے بجائے پاکستان کو اپنی ترجیح بنائیں، ہم اکنامک ایمبیلینس کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں، اس کی وجہ وہ اسٹرکچرل فیکٹرز ہیں جن کی وجہ سے سرمایہ کاری، معاشی پیداوار اور برا ٓمدات دباؤ کا شکار ہیں، ماضی میں ریاست پر غیر ضروری بوجھ ڈالا گیا جس کی وجہ سے حکومتی اخراجات ناقاب برداشت ہوگئے، اس کا خمیازہ مہنگائی، کم پیداواری صلاحیت اور کم آمدن والی ملازمتوں کی سورت مین عوام کو بھگتناپڑا۔ وزیر کا کہنا تھا کہ اس کم ترقی کی سائیکل سے باہر آنے کے لیے اسٹرکچرل ریفارمز کو آگے بڑھانا ہے اور معیشت میں مراعات کو صحیح کرنا پڑے گا جیسا کہ:ہمیں ایک حکومت کی جانب سے معاشی تعین کرنے کے بجائے مارکیٹ پر مبنی معیشت کی طرف جانا ہے۔
ہمارے معاشی نطام کو عالمی معیشت کے ساتھ چلتے ہوئے بر آمدات کو فروغ دینا ہوگا،
ہماری معاشی ترقی کو کھپت کی بنیاد کے بجائے سیونگز اور سرمایہ پر مبنی ہونا چاہیے۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ معاشی نظام میں یہ تبدیلیاں لاتے ہوئے ہمیں مساوات اور شمولیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، ہمیں درجہ ذیل پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے جرات مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
1 ۔ تمام جدید معیشتوں کی طرح ہمیں بھی وسیع پیمانے پر نجکاری اور ریگولیٹری اصلاحات کرتے ہوئے ریاست کے فٹ پرنٹ کو صرف اہم پبلک سروسز تک محدود رکھنا ہوگا۔
2 ۔ پیداواری صلاحیت میں بہتری لانے کے لیے اندرون ملک اور بیرون ملک سے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور ریگولیٹری اور انویسٹمنٹ کلائمیٹ امپروومنٹس کرنی ہوں گی۔
3 ۔ بروڈ بیس فیئر ٹیکسیشن ریجیم کا قیام بھی انتہائی ضروری ہے جو سب کے لیے یکساں مواقع فراہم کرے برآمد مخالف تحریف کو ختم کرے۔
4 ۔ توانائی کی قیمت کو کم کرنے کے لیے توانائی کے شعبے میں مارکیٹ پر مبنی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔
5 ۔ جدید معیشت کے لیے صحت، تعلیم اور اسکل ڈیولپمنٹ کے نظام کی تشکیل انتہائی ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ خسارے کو کم کرنا ہمارا اہم مقصد ہو گا اور اس سلسلے میں ایک منصفانہ ٹیکس پالیسی کی بدولت اپنی آمدن کو بہتر بڑھائیں گے اور غیرضروری اخراجات کو کم کریں گے لیکن یہ کمی کرتے ہوئے ہمیں انسانی ترقی، سماجی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات کو ترجیح دینا ہو گی اور ان میں کمی نہیں لائی جائے گی۔
انہوں نے توانائی کے شعبے کو موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں پیداواری لاگت کو کم، ایس ای او کی تنظیم نو اور نجکاری کرنی ہے اور اچھی گورننس اور سب کو یکساں مواقع فراہم کر کے نجی شعبے کو فروغ دینا ہے جہاں اس سب کا مقصد آمدن سے زائد اخراجات کے دائمی مسئلے کو حل کرنا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح میں دوسرے ممالک سے کافی پیچھے ہے، اسی لیے ٹیکس نظام میں اصلاحات ہماری معاشی کامیابیوں کے لیے انتہائی اہم ہیں، ایف بی آر میں کثیرالجہتی اقدامات پہلے سے جاری ہیں اور وزیر اعظم ڈیجیٹلائزیشن، ٹیکس پالیسی اور ایف بی آر میں انتظامی اصلاحات پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور ان کی واضح ہدایت ہے کہ ٹیکس نیٹ میں پہلے موجود لوگوں پر بوجھ نہ ڈالا جائے بلکہ ٹیکس کے دائرہ کار میں وسعت لائی جائے۔
تاجر دوست اسکیم کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس اسکیم کا مقصد ہول سیلرز، ڈیلز اور ریٹیلرز کو رجسٹر کرنا ہے اور اب تک ہم 30ہزار 400 افراد کی رجسٹریشن کر چکے ہیں اور آنے والے دنوں میں اس میں مزید تیزی لائی جائے گی جس کے لیے موجودہ ڈیٹا کا موثر استعمال کیا جائے گا۔ انہوں نے مجموعی وسائل میں اضافے کے لیے صوبوں اور حکومت کے مل کر کام کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ ایک جامع ’نیشنل فسکل پیکٹ تجویز کرتے ہیں کیونکہ ہم آہنگی اور یگانگت خودکفالت کے ہدف کو حاصل کرنے کا واحد راستہ ہے اور اس سلسلے میں صوبوں سے مشاورت جاری ہے۔
اخراجات میں کمی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی بی ایس ایک سے 16 تک تمام خالی آسامیوں کو ختم کرنے کی تجویز زیر غور ہے جس سے 45ارب روپے سالانہ کی بچت ہونے کا امکان ہے جبکہ وفاقی کابینہ کے حجم کو کم کرنے کے لیے بھی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی حکومت کے بجٹ کا بڑا حصہ گڈز اینڈ سروسز کی پروکیورمنٹ میں صرف ہوتا ہے، پروکیورمنٹ کے نظام میں آسانی اور شفافیت کے ذریعے حکومت کی کارکردگی میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ وسائل کی بچے بھی کی جا سکتی ہے اور ای پروکیورمنٹ کے ذریعے سرکاری خرچ میں 10 سے 20 فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے جبکہ یہ نظام میں کرپشن، فراڈ اور بدنیتی جیسے مسائل پر قابو پانے میں بھی معاون ثابت ہو گا۔ اس سلسلے میں مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ نظام 37وزارتوں اور 279 پروکیورنگ ایجنسیوں میں نافذ ہو چکا ہے جس کے تحت 14 ارب روپے کی پروکیورمنٹ ہو چکی ہے، پروکیورمنٹ ایجنسیوں کے ساڑھے 8ہزار ملازمین کی تربیت مکمل کی جا چکی ہے اور 10ہزار 545 سپلائرز اس نظام میں رجسٹر ہو چکے ہیں۔
یاد رہے کہ بجٹ اجلاس شام چار بجے شروع ہونا تھا لیکن کچھ وجوہات کی وجہ سے بجٹ اجلاس تقریباً دو گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا۔وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے نئے مالی سال کی بجٹ دستاویزات پر دستخط کے بعد وزیر خزانہ نے بجٹ پیش کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں وفاقی کابینہ نے آئندہ مالی سال 24-2023 کے بجٹ کی منظوری دی ، کابینہ اجلاس میں کسانوں، نوجوانواں اور صعنتوں کے لیے پیکج کی منظوری بھی دی گئی۔ کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےوزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ ملک کو معاشی مشکلات کے منجدھار سے نکال کر استحکام کی طرف لائے، تاریخ گواہ ہے کہ ہم نےاپنی سیاست قربان کرکے ملکی معیشت کو بچایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ کی مدد سے اور نواز شریف کی قیادت میں ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، ملک کو دیوالیہ کرنےکےخواب دیکھنے والوں کی سازشیں دھری رہ گئیں، سازشی ٹولے نے ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی بے حرمتی کی گئی، اپنی کئی برس کی عملی سیاست میں ایسا انتشار پہلی بار دیکھا۔ شہبازشریف نے کہا کہ بجٹ میں جس قدر ہو سکا عام آدمی کو ریلیف دیا، ملک کے مزدور،کسان اور تنخواہ دار طبقے کے ریلیف کے لیے اقدامات کریں گے۔
حکومت کے عبوری منصوبے کے مطابق بجٹ پر عام بحث 20 جون کو شروع ہوگی جو 24 جون تک جاری رہے گی، ارکان 26 اور 27 جون کو کٹ موشن پر بحث اور ووٹنگ میں حصہ لیں گے جب کہ 28 جون کو بجٹ کو منظور کیا جائے گا۔ حکومت نے ایک دن پہلے پاکستان اکنامک سروے 2023-24 جاری کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مشکل حالات کی وجہ سے معیشت گزشتہ بجٹ میں مقرر کردہ اپنے زیادہ تر اہداف کو پورا کرنے میں ناکام رہی، تاہم زراعت کے شعبے نے بے مثال ترقی حاصل کی۔ وزیراعظم شہباز شریف، نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار، چاروں وزرائے اعلیٰ، دفاع، خزانہ اور منصوبہ بندی کے وزرا پر مشتمل قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) نے گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 47 فیصد اضافہ کرتے ہوئے 37 کھرب 92 ارب روپے کے وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کی منظوری دی۔ رپورٹ کیا گیا تھا کہ وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف بجٹ سے قبل اہم بات چیت میں مصروف ہیں جب کہ عالمی قرض دہندہ نے کچھ سخت شرائط حکومت کے سامنے رکھ دی ہیں۔ آئی ایم ایف کے اہم مطالبات میں ٹیکس ریونیو ہدف میں اضافہ، سبسڈیز کا خاتمہ، زرعی شعبے پر ٹیکس، بجلی، گیس اور تیل کے شعبوں پر لیوی اور ٹیکسوں میں اضافہ، خسارے کا شکار سرکاری اداروں اور یونٹس کی نجکاری اور گورننس کو بہتر بنانا شامل ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کو پیش کی گئی رپورٹ میں کمیٹی نے کچھ سرکاری اداروں کو بند کرنے، کئی اداروں کو ضم کرنے اور کچھ اداروں کو صوبوں کے حوالے کرنے کی سفارش کی۔ وزیراعظم نے ابتدائی تجاویز پر غور کرنے کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دے دی، کمیٹی 10 ہفتوں کے اندر جامع رپورٹ پیش کرے گی۔
شہباز شریف نے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کو ہدایت دی کہ وہ عالمی سطح کے بہترین تجربات سے استفادہ حاصل کرکے ٹھوس تجاویز دے، امید ہے کہ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں قوم کے اربوں روپے کی بچت ہو سکے گی۔ وزیراعظم کو پیش کی گئی رپورٹ میں ایک سال سے زائد سے خالی تمام اسامیاں ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے، نئے بھرتی ہونے والے سرکاری ملازمین کے لیے کنٹریبیوٹری پینشن کا نظام لانے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔