هفته,  23 نومبر 2024ء
کسانوں کا تاریخی معاشی قتل ، اس بار عید پر کپڑے بھی نہیں خرید سکیں گے ، تفصیلی رپورٹ میں حیران کن حقائق سامنے آگئے

اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز )پاکستان میں کسان کو جو رگڑا لگایا جاتا ہےاس کی مثال دنیا میں کہی بھی نہیں ملتی ، چھ فیصد ترقی ہوتی نظر آتی ہے وہ بھی صرف کسان کی وجہ سےہے۔بدلے میں کسان کو کیا مل رہا ہے؟ کسان کو ختم کرنے کا مطلب ملک کو ختم کرنا ہے کیونکہ ہم زرعی ملک ہوتے ہوئے ایسی حرکت کریں گے تو قحط ہی آئے گا۔ پاکستان میں کسانوں کے استحصال پر کسان اتحاد کے مرکزی چیئر مین خالد حسن باٹھ اور صدر میاں عمیر نے کہا کہ کسانوں کا تاریخی معاشی قتل ہوا ہے، پنجاب حکومت نے گندم خریدنے سے انکار کیا ۔

ایک گفتگو میں خالد حسین باٹھ نے کہا کہ کسان عید پر نئے کپڑے تک نہیں خرید سکتے۔ حکومت ہوش کے ناخن لے اور کسانوں کی خوشحالی بارے سوچا جائے۔میاں عمیر مسعود نے کہا کہ گزشتہ سالوں میں زبردستی ہم سے گندم لے جایا کرتے تھےاس مرتبہ گندم نہ خریدنے کی وجہ سے ہمیں 1000 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔

گندم کے مسئلے نے کسانوں کو ذلیل و رسوا کردیا

پنجاب میں گندم کی ریکارڈ پیداوار کے باجود کسان پریشان حال ہے اور اس کی فصل خریدنے والا کوئی نہیں، حکومت نے ان محنت کشوں کو ذلیل و رسوا کردیا۔

پتوکی سے ایک کسان اتحاد کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہاں کی زیادہ تر آبادی زراعت پر انحصار کرتی ہے لیکن شوگر ملز مالکان نے کسانوں کو گنے کی فصل کا معقول معاوضہ نہ دیا تو انہوں نے گندم اگانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ گندم کی شاندار فصل ہونے کے بعد 3900 روپے فی من کا ریٹ مقرر کیا گیا حالانکہ کھاد اور دیگر ادویات بہت مہنگی ملیں تھیں، اس کے باوجود اب اس کو خریدا نہیں جارہا، کسان احتجاج کرے تو پولیس گھروں پر چھاپے مارتی ہے۔

ایک اور کسان رہنما نے کہا کہ گندم کی بہترین فصل بھی کسان کیلئے وبال جان بن گئی حکومت کی نااہلی نے اس رحمت کو زحمت بنادیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ نعرہ بالکل غلط اور کھوکھلاہے کہ خوشحال کسان تو خوشحال پاکستان۔

ایک اور رہنما کا کہنا تھا کہ کسانوں کے پاس اتنے ذرائع یا گودام نہیں کہ اس گندم کو ذخیرہ کرلیں اور اگر کربھی لیں تو کتنے دن تک کرلیں گے؟ ہم نے اگلی فصل بھی تو اگانی ہے اس پر کام کیسے کریں گے؟

مزید پڑھیں: گندم چوری کا الزام مجھ پر ثابت ہوا تو میں حاضر ہوں،انوارالحق کاکڑ

پاکستان میں زراعت کے مسائل اور ان کا حل

۔شعبہ زراعت کی اہمیت:۔پاکستان کا کل رقبہ79.6ملین ایکڑ ہے،جس میں سے 23.7ملین ایکڑ ،زراعی رقبہ ہے جو کل رقبے کا 28فیصد بنتا ہے۔اس میں سے بھی8ملین ایکڑ رقبہ زیرِ کاشت نہ ہونے کے باعث بے کار پڑا ہے،حالانکہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس کا ماحول اورموسم بھی زراعت کے لئے بہترین زونز کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اس طرح پاکستان میں ہمہ قسم کی غذائی اشیاء کی پیداواری صلاحیت موجود ہے۔اس کی 75فیصد سے زاید آبادی زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے۔ملک کی مجموعی قومی پیداوارمیں زراعت کا حصہ 21فیصد ہے۔یہ شعبہ ملک کے 45فیصد لوگوں کے روزگارکا ذریعہ ہے۔زراعت کا شعبہ لوگوں کو خوراک اورصنعتوں کو خام مال کی فراہمی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستانی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرِ مبادلہ کا 45فیصد زرعی تجارت سے حاصل ہوتا ہے۔
*۔پاکستان کا اہم شعبہ ہونے کے باوجود،یہ بری طرح نظر انداز ہورہا ہے جس کے نتیجہ میں اس کو گوناں گوں مسائل کا سامنا ہے۔
۲۔شعبہ زراعت کے مسائل:۔(i)۔زراعت کے شعبے سے وابستہ آبادی کا 50فیصد بے زمین ہاریوں پر مشتمل ہے اور یہ غربت سے بری طرح متاثر ہیں۔ جاگیر دارانہ نظام ،ایک ظالمانہ نظام بن گیا ہے۔
ii)۔ کسانوں کو پانی کی کمی کا بھی سامنا رہتا ہے ہے۔ آبپاشی کی سہولتیں ناکافی ہیں۔بھارت کی طرف سے آبی دہشت گردی بھی ہوتی رہتی ہے۔دریاؤں کے پانی پر اس کا کنٹرول ہے۔یہ جب چاہتا ہے ،پاکستان میں سیلاب اور قحط لے آتا ہے۔
iii)۔ اس جدید دور میں بھی پاکستان کا کسان فرسودہ اور پرانے طریقوں سے کاشتکاری کرنے پر مجبور ہے۔زرعی آلات اتنے مہنگے ہیں کہ کسان کی استطاعت سے باہر ہیں۔
iv)۔ مہنگی ہونے کے ساتھ ،جعلی زرعی ادویات بھی،پاکستانی کسان کا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔
v)۔ سودی زرعی قرضے اور وہ بھی زیادہ شرح سود پر،غریب کسان کاایک سنگین مسئلہ ہے۔
vi)۔ کسانوں کو ان کی اجناس کی معقول قیمت نہیں ملتی۔ یہ اپنی آمدن سے اپنے روزمرہ کے اخراجات بھی پورے نہیں کر پاتے۔
vii)۔ حکومت کے پاس ضروری غذائی اشیاء ذخیرہ کرنے کے مناسب انتظامات نہیں ہیں۔اس طرح تقسیم کا نظام بھی ناقص ہے۔
viii)۔کسانوں کی ناخواندگی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے اور یہ زراعت میں جدت لانے میں ایک رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
ix)۔ فی ایکڑ پیداوار کم ہے۔اس سے مجموعی ملکی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے۔
x)۔ زرعی شعبہ خصوصی فنڈز کی کمی کا شکار ہے۔
xi)۔آبپاشی کے ناقص نظام کی وجہ سے بہت سا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔
xii)۔ پانی کی آلودگی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔اس کا سبب نمکیات کی کمی بیشی ہے۔
۳۔زراعت کے مسائل کے اسباب:۔
i)۔زمین کی ملکیت کی حد طے نہیں ۔بڑی بڑی جاگیریں بے آباد اور بے کارپڑی ہیں۔
ii)۔چھوٹے چھوٹے کھیتوں کی تعداد زیادہ ہے۔لہٰذا ان میں جدیدطریقوں سے کاشتکاری ممکن نہیں ہوتی۔
iiiَ)۔حکومت نے اپنے فیصلوں میں زراعت کو کبھی ترجیحی طور پر نہیں لیا۔اس لئے یہ شعبہ حکومتی عدم دلچسپی کا شکار ہے۔
iv)۔ کھیتوں کا ناہموار ہونا بھی ایک سبب ہے۔
v)۔ کھادوں کا غیر متناسب استعمال بھی مسائل کو جنم دیتا ہے۔
vi)۔غیر معیار بیجوں کا استعمال بھی پیداوار پر اثر ڈالتا ہے۔
vii)۔ ناقص زرعی ادویات، دوہرا نقصان پہنچاتی ہیں ۔ایک تو پیداوار ضائع ہوتی ہے دوسرے زمین بھی ناکارہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
viii)۔پاکستان واحد ملک ہے جہاں زرعی آلات پر ٹیکس عائد ہے۔
ix) ۔منڈیوں تک رسائی میں بھی دشواریاں حائل ہوتی ہیں ۔
x)۔ موسموں اور سیلابوں کی غیریقینی صورتِ حال سے بھی زراعت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
xi)۔ سیم اور تھور سے بھی زمین ناکارہ ہوجاتی ہے اور پیداوار دینے کے قابل نہیں رہتی۔
۴۔زراعت کے مسائل کا حل:۔
i)۔حکومتی سطح پر زرعی شعبہ کے لئے فنڈز میں اضافہ کیا جائے اور خصوصی مراعات کا اعلان کیا جائے۔
ii)۔کسانوں کو پانی کی فراہمی کو بہتر بنایا جائے اور آبپاشی کے متبادل ذرائع تلاش کئے جائیں۔
iii)۔زرعت کے جدید طریقوں سے استفادہ کیا جائے۔
iv)۔حکومت کسانوں سے مشاورت کے بعد ،ہر فصل کے پیداواری اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے قیمتیں متعین کرے۔
v)۔بڑی بڑی جاگیروں کو مناسب مقدار کے کھیتوں میں تقسیم کیا جائے اور پھر ان کی کاشت کا بندوبست کیا جائے۔
vi)۔ڈیموں کی تعمیر بلا تاخیر کی جائے ،تاکہ پانی ذخیرہ کیا جاسکے اور اس سے توانائی بھی پیداکی جائے۔
vii)۔کسانوں میں زمینوں کی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر اور طے شدہ معیار کے مطابق شفاف انداز میں ہونی چاہئے۔
viii)۔حکومت کو زراعت کی ترقی کے لئے انفراسٹرکچر پر توجہ دینی چاہئے۔
ix) ۔کسانوں کو بلا سود قرضے فراہم کئے جائیں اور چھوٹے کاشتکاروں کو مالی اامداد دی جائے۔
x)۔دوسرے ملکو ں کی طرح پاکستان میں بھی زرعی آلات پر ٹیکس ختم کیا جائے۔
xi)۔غیر معیاری بیجوں اور زرعی ادویات کی سپلائی کو کنٹرول کیا جائے۔
*۔۔۔ اگر حکومت زراعت کے شعبہ کی اہمیت کے پیشِ نظر ،اس کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلے اور اس کے گوناں گوں مسائل پر توجہ دے تو یہ بآسانی حل ہو سکتے ہیں۔ اس سے زراعت کا شعبہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا۔ یوں پاکستا ن خوشحال ہوگا اور اس کے عوام آسودہ ہوں گے۔پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے وافر افرادی قوت سے بھی نوازا ہے جو باصلاحیت اور ہنر مند ہے۔کمی، صرف باہمت اور پُر عزم قیادت کی ہے۔جو دیانتدارہو اور پاکستان سے مخلص بھی ہو۔الحمد للہ ایسی مطلوبہ قیادت، ملک کو جماعت اسلامی ہی فراہم کر سکتی ہے۔

مزید خبریں