هفته,  23 نومبر 2024ء
وزیراعظم شہباز شریف کےدورہ چین میں سی پیک مرکز نگاہ

وزیراعظم محمد شہباز شریف وزارت عظمی کا منصب سمبھالنے کے بعد اپنے دورہ چین میں سی پیک معاہدوں کو خصوصی اہمیت دے رہے ہیں تاکہ پاکستان میں سی پیک پروجیکٹ دوبارہ جاری ہوسکیں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت چین کی مدد سے اپنی مصنوعات کو بہتر بنانے والی کاروباری شخصیات کی ہر طرح سے مدد کرے گی۔ شینزن میں پاک چائنا بزنس فورم سے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان بدعنوانی پر قابو پانے کے لیے مؤثر اقدامات کر رہا ہے۔

ملک میں بنیادی ڈھانچے کی اصلاحات اور کرپشن کے خاتمے کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چین کی ترقی ہمارے لیے ایک مثال ہے، بہت کم وقت میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر اُبھرا۔

وزیراعظم نے پاکستانی سرمایہ کاروں سے کہا کہ چین کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو پاکستان کیسے منتقل کیا جا سکتا، چمڑے کی صنعت اور دیگر شعبوں میں کیسے ایکسپورٹ کو بڑھایا جا سکتا ہے اس کے لیے چینی ماہرین سے مل کر بیٹھیں۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے بزنس کونسل قائم کی۔ قرضوں کے لیے نہیں کاروبار اور سرمایہ کاری پر بات کرنے آیا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ چینی شہریوں کو فول پروف سکیورٹی دیں گے۔ اور جو چینی شہریوں پر حملوں کے جو افسوس ناک واقعات پیش آئے وہ آئندہ نہیں ہوں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان میں مارے گئے چینی انجینئرز کے خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کیا اور کہا کہ پوری پاکستانی قوم اس پر افسردہ ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں اپنے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک بھرپور عزم کرنا ہے. پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پاک چائنہ بزنس فورم سے خطاب میں کہا کہ تمام اعشاریے مثبت سمت میں جا رہے ہیں۔

مہنگائی میں واضح کمی آئی ہے۔ توجہ اقتصادی اصلاحات پر ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد ہے۔ شرح سود کے معاملے کو رواں سال دیکھنا ہے۔
ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا بزنس فورم سے خطاب میں کہنا تھا کہ آئی ٹی، زراعت اور معدنیات سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کھویا ہوا معاشی مقام حاصل کرنا ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ برسوں میں معاشی تباہی ہوئی۔قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے دورہ چین کے دوران کمیونسٹ پارٹی کے شینزن کے سربراہ اور صوبہ گوانگڈونگ کے نائب سربراہ مینگ فینلی سے ملاقات کی۔

وزیر اعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق ملاقات میں مینگ فین لی نے وزیرِ اعظم کا شینزن آنے پر خیرمقدم کیا اور انہیں شینزن کے حوالے سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا۔وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان چین کی ترقی سے بہت متاثر ہے اور چین کی ترقی سے سیکھنا چاہتا ہے۔ہماری حکومت سی پیک کے دوسرے مرحلے میں پاکستانی اور چینی کمپنیوں کے اشتراک اور سرمایہ کاری سے ملکی برآمدات میں اضافے کے لیے کوشاں ہے۔

مینگ فینلی نے کہا کہ چین اور پاکستان کی دوستی بہت مضبوط اور گہری ہے۔ شینزن کی حکومت اور شینزن کے لوگوں کے لیے آپ کی میزبانی اعزاز کی بات ہے۔
امید کرتا ہوں آپ کی چینی اعلی قیادت بالخصوص چینی صدر شی جن پنگ اور چینی وزیرِ اعظم لی چیانگ کے ساتھ ملاقاتیں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات اور شراکت داری کے فروغ کے حوالے سے مفید ثابت ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ شینزن میں پاکستانی طلباء کی بڑی تعداد زیرِ تعلیم ہے۔ پاکستان اور شینزن کے مابین تجارت کے فروغ کے وسیع مواقع موجود ہیں۔

اس سے قبل چینی میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے دوطرفہ تعلقات، اقتصادی و تجارتی اور سرمایہ کاری روابط کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان چین کے تجربات سے استفادہ کرکے برآمدات میں اضافے کا خواہاں ہے، سی پیک اعلیٰ معیار کی ترقی کے دوسرے مرحلہ میں داخل ہو رہا ہے، دونوں ممالک کے درمیان تعاون سے پاکستان کی سائنسی و تکنیکی ترقی کو فروغ ملا ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ چینی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کریں اور پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ مل کر مشترکہ منصوبے بنائیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس دورے کے ذریعے پاکستان دونوں ممالک کی کمپنیوں کے درمیا ن روابط کےفروغ، خصوصی اقتصادی زونز، صنعتوں کے قیام اور مشترکہ منصوبوں کے ذریعے پاکستان کی افرادی قوت کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہونے، صنعتوں اور ٹیکنالوجی کی منتقلی میں سہولت، پاکستان کی مصنوعات کی پیداوار میں اضافے کی امید ہے۔

اس کے علاوہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کو بھی اپ گریڈ کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے ڈھانچہ جاتی اور ادارہ جاتی اصلاحات، اخراجات میں کمی، صنعتوں کےفروغ اور سرمایہ کاروں کے لیے سہولتیں پیدا کرنے کے ذریعے قومی معیشت میں بہتری لانے کی حکومتی ترجیحات کا ذکر کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان چین کے تجربات سے سیکھنا چاہتا ہے اور خصوصی اقتصادی زونز کے قیام کا خواہاں ہے، اس سلسلے میں پہلا اقتصادی زون پاکستان سٹیل ملز میں قائم کیا جائے گا جسے پہلے ہی ریل نیٹ ورک سے منسلک کیا جا چکا ہے اور یہ بندرگاہ کے قریب ہے۔ انہوں نے چینی صوبوں اور کمپنیوں کو دعوت دی کہ وہ خصوصی اقتصادی زونز قائم کریں اور باہمی فائدے کے لیے پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبے شروع کریں۔انہوں نے چینی ٹیکسٹائل شعبہ کو پاکستان میں اپنے یونٹس قائم کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ دورہ چین کے دوران وہ ہواوے کمپنی کو بھی قائل کریں گے کہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے حوالہ سے پاکستانی نوجوانوں کے لیے مختصر مدت کے کورسز شروع کرے تاکہ وہ اپنا کاروبار خود شروع کر سکیں اور خلیجی ممالک کے لیے اپنی خدمات مہیا کریں اور پاکستان میں واپس ترسیلات زر بھجوائیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان چین کی زرعی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے زرعی پیداوار اور ان کی برآمدات کو بڑھانے کا خواہاں ہے۔
دو طرفہ تعلقات کے حوالہ سے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور چین آئرن برادرز ہیں اور ہماری دوستی لازوال ہے، ہمارے دل ایک دوسرے کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔

انہوں نے مشکل ترین وقت میں چین کی طرف سے پاکستان کی حمایت کو سراہا اور کہا کہ پاکستان چین کو دنیا بھر میں اپنا سب سے قابل اعتماد دوست سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ون چائنا اصول پر مضبوطی سے کاربند ہے اور یہ عزم ہمیشہ اٹل رہے گاچین کی ترقی سے متعلق انہوں نے کہا کہ آج چین وژن، سخت محنت اور سنجیدہ اور انتھک کاوشوں کی وجہ سے ایک عظیم قوت بن چکا ہے، چینی ماڈل کے بارے میں تمام شکوک و شبہات کو تاریخ کے شواہد نے غلط ثابت کیا ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے حوالہ سے وزیراعظم نے کہا کہ 2013میں اس کے آغاز کے بعد سے حاصل ہونے والی کامیابیاں سب کے سامنے عیاں ہیں۔ توانائی کے صاف اور بہتر بنیادی ڈھانچہ کے حوالہ سے تیز تر اور مفید نقل و حمل کے نیٹ ورک کے نتیجہ میں سی پیک سے پاکستان کے لیے وسیع تر ترقی کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے اور اعلیٰ معیار کی ترقی کے ایک نئے مرحلے میں دونوں ممالک زراعت، کان کنی، محنت کش روشنی کی صنعت اور دیگر شعبوں میں تعاون کر رہے ہیں۔

چین کے تعاون سے پاکستان کے پہلے سیٹلائٹ اور ملٹی مشن کمیونیکیشن سیٹلائٹ کی لانچنگ کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان سائنسی اور تکنیکی تعاون نے پاکستان کی سائنسی اور تکنیکی ترقی کو فروغ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملٹی مشن کمیونیکیشن سیٹلائٹ سے پاکستان کا موجودہ ڈیجیٹل ماحول تبدیل ہونے کی توقع ہے، پورے ملک کے لیے تیز رفتار انٹرنیٹ سہولیات فراہم ہوں گی، لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہو گا اور ای کامرس اور آن لائن حکومتی امور اور اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا۔

واضح رہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے، جس کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کرنا ہے اقتصادی راہداری پاک چین تعلقات میں مرکزی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہے، گوادر سے کاشغر تک تقریباً 2442 کلومیٹر طویل ہے۔

یہ منصوبہ مکمل ہونے میں کئی سال لگیں گے اس پر کل 46 بلین ڈالر لاگت کا اندازہ کیا گيا ہے۔راہداری چین کی اکیسویں صدی میں شاہراہ ریشم میں توسیع ہے۔ 22, مئی 2013ء کو پاکستان میں چینی وزیر اعظم کے دورے کے دوران، صدر پاکستان آصف علی زرداری اور چینی وزیر اعظم کے درمیان گوادر پورٹ کی حوالگی سمیت پاک چائنہ اقتصادی راہداری سمیت مختلف شعبوں میں مفاہمت کی یادداشتوں پر چین اور پاکستان کے درمیان منصوبوں پر دستخط ہوئے تھےراہداری کے بڑے منصوبے جو دوطرفہ تعاون سے ہیں: چین کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس قوم نے ہر دور میں کڑی محنت سے اپنا ایک بلند مقام حاصل کیا ہے۔سی پیکآرکائیو شدہ بذریعہ کے اس پروجیکٹ میں اب کئی ممالک شامل ہو چکے ہیں۔

چین کا یہ پراجیکٹ آج اپنی تکمیل کی جانب رواں دواں ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت چین پاکستان میں 62 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کے تحت سڑکیں، زراعت، بجلی اور پانی کے منصوبوں پر کام ہو گا۔ سی پیک بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ایک بہت اہم حصہ ہے جس کی بنیاد سنہ 2013 میں مسلم لیگ (ن) کے دور میں رکھی گئی تھی۔ ون پلس فورکہے جانے والے اس منصوبے میں ون سی پیک کو کہا جاتا ہے اور چار اس کے تحت منصوبے ہیں جن میں گوادر بندرگاہ، توانائی اور مواصلاتی نظام اور صنعتی زونز کو بہتر بنانا شامل ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے سنہ 2006 میں چین کے ساتھ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے جن میں 50 کے قریب منصوبوں پر کام ہونا تھا۔ یہ منصوبوں سے زیادہ ایک وِش لسٹ تھی۔

جس میں یہ واضح ہے کہ اس ایم او یو کے تحت کام نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ نا ممکن تھا۔ گوادر بندرگاہ میں 91 فیصد ریوینیو شیئر چین کا ہے اور باقی پاکستان کاہے18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سی پیک کے منصوبوں سے متعلق اپنی سفارشات وفاقی حکومت کو منظوری کے لیے بھیج سکتے ہیں۔پاکستان میں سی پیک کی بنیاد ایک ایسے وقت میں رکھی گئی تھی جب پاکستان کو دنیا بھر میں ایک ناکام ملک کا لقب دیا گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود چین نے پاکستان میں 62 ارب ڈالرز کی اقتصادی راہداری کے معاہدے پر دستخط کیے جس کے بارے میں پاکستان کو یہی تاثر ملا کہ چین دوست ہے اس لیے سرمایہ لگاتا ہے۔اس دوران سی پیک کے بارے میں گیم چینجر,فیٹ چینجرجیسے الفاظ کئی بار استعمال کیے گئے

مزید خبریں