تحریر:اصغر علی مبارک
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان غزہ کے مظلوم فلسطینی لوگوں کی ایک بہت ہی توانا آواز ہےغزہ کی صورتحال پروزیراعظم پاکستان کی اپیل کےتناظرمیں چینی ,امریکی صدورکی تجویزدنیا کےسامنے آئی ہے
یاد رہے کہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے غزہ کی تازہ صورت حال پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل عالمی عدالت اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کو پامال کر رہا ہے، پاکستانی عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے عالمی طاقتوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ مظلوم فلسطینی اور کشمیری عوام کو ان کے حقوق دلائیں۔
اس اپیل کے بعد بین الاقوامی طاقتوں چینی اور امریکی صدور نے غزہ جنگ بندی کے لیے نئے آئیڈیاز پیش کیے۔ چینی صدرشی جن پنگ کی فلسطین امن کانفرنس کےاعلان کیا جبکہ امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سےجنگ بندی کی منصوبے کو بھرپور حمایت حاصل ہورہی ہے۔ نئے منصوبے کے تحت امریکی صدرنے کشیدگی کو تین مراحل میں کم کرنے کا تصور پیش کیا ہے، جس میں بنیادی طور پر ایک جنگ بندی شامل ہے، جو مستقل ہو جائے گی اور اسرائیل کا فلسطینی سرزمین سے انخلاء ہو گا۔ یہ تجویز کردہ منصوبہ امریکی، مصری اور قطری ثالثوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے، خیال رہے کہ غزہ کی صورتحال پرگزشتہ روز سینئر تجزیہ کار اصغر علی مبارک نے ترجمان وزارت خارجہ پاکستان محترمہ ممتاز زہرہ بلوچ سے براہ راست سوال کیا کہ فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بہت سی آوازیں اٹھ رہی ہیں اور پاکستان بھی فلسطین کی بھرپور حمایت کرتا رہا ہے۔
حال ہی میں چین نے ایک بین الاقوامی امن کانفرنس کے انعقاد کے لیے عرب سربراہان مملکت سے بھی بات کی۔ کیا پاکستان بھی اس طرح کی کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کا تعاون کیا ہو گا؟جواب میں ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ پاکستان غزہ کی صورتحال اور ہونے والی نسل کشی کے بارے میں اپنے تحفظات پر بہت آواز اٹھا رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کا بیان دیکھا ہوگا جس میں غزہ کی صورتحال اور رفح میں شہریوں پر حالیہ حملوں پر پاکستان کے گہرے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام کی حمایت کرے گا جو امن اور جنگ بندی کا باعث بن سکے، غیر مشروط اور فوری جنگ بندی، تاکہ فلسطینی عوام کو ریلیف مل سکے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ غزہ کے خلاف محاصرہ ختم ہو جائے اورمظلوم فلسطینی عوام کوانسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کی جائے۔
فلسطین کی تازہ صورت حال پر وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا تھا کہ غزہ اور رفح میں نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم اور بربریت کی انتہا ہو چکی ہے، اسرائیل کے بد ترین حملے شروع ہو چکے ہیں، دن رات بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو شہید کیا جا رہا ہے۔ ہزاروں گھر مسمار کر دیے گئے ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ عالمی عدالت کے فیصلوں کو پامال کیا جا رہا ہے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کیا جا رہا ہے، دُنیا کی کوئی طاقت اسرائیل کو اس بد ترین زیادتی اور ظلم سے باز نہیں رکھ سکی اور آج وہاں پر خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔
اس دردناک منظر کو آج تک کسی آنکھ نے نہیں دیکھا۔ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ مشکور ہوں عالم اسلام کا جو فلسطین پر اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، اقوام متحدہ اور سیکیورٹی کونسل میں آواز اٹھا رہے ہیں، خلیجی ممالک میں سعودی عرب کے کراؤن پرنس اس میں سب سے اہم کردار ادا کر رہے ہیں، اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات، قطر اور کویت بھی شامل ہیں۔ ان یورپی ممالک کا بھی شکر گزار ہوں ،جن میں اسپین، ناروے اور آئر لینڈ شامل ہیں، جنہوں نے اسرائیل کے ظلم و جبر کے خلاف فلسطینی ریاست کے قیام کی بھرپور حمایت کی ہے، میں نے ناروے اور آئرلینڈ کے وزیراعظم کو ٹیلی فون کر کے مبارکباد دی اور اپنی اور اپنی حکومت اور 25 کروڑ عوام کی طرف سے ان کا شکریہ ادا کیا تھا، کہ وہ نہتے فلسطینیوں کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کی آزاد حیثیت کو تسلیم کیا۔ مجھے یقین واثق ہے اس سے دیگر ممالک کو بھی حوصلہ ملے گا اور وہ بھی ان 3 ممالک کے ساتھ فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی آواز کو بلند کرتے ہوئے ان پر ہونے والے مظالم کی مذمت اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے آواز بلند کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے سب بدست دعا ہیں کہ فلسطینی عوام پرجو ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، ان کی مشکلات ختم ہوں، اللہ جلد دوبارہ انہیں اپنے گھروں میں آباد کرے اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے۔ میں مظلوم فلسطینی اور کشمیری عوام کے لیے اپنی آواز اٹھاتا رہوں گا۔
پاکستانی عوام کی سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہوں کہ عالمی طاقتیں فلسطینی اور کشمیری عوام کو ان کے حقوق دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔یاد رہے کہ صدر شی جن پنگ نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے خاتمے کے لیےبیجنگ میں منعقدہ ”چین۔ عرب ممالک کوآپریشن فورم‘‘ میں مشرق وسطیٰ امن کانفرنس منعقد کرانے کا مطالبہ کیا,شی جن پنگ نے کہا کہ “گزشتہ اکتوبر سے فلسطینی اسرائیلی تصادم میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس نے لوگوں کو بے پناہ مصائب میں مبتلا کر دیا ہے۔” “جنگ غیر معینہ مدت تک جاری نہیں رہنی چاہئے۔ بیجنگ جنگ کے بعد تعمیر نو میں مدد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے چین دنیا میں اپنے سفارتی اثرات کو مسلسل وسعت دے رہا ہے۔ چین نے موجودہ اسرائیل غزہ جنگ میں غیر جانبدارانہ موقف اختیار کیا اور فائر بندی کے لیے مذاکرات کا بارہا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ تاہم چین نے فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی طرف سے اسرائیل پر سات اکتوبر کو کیے جانے والے حملے، جس کے نتیجےاپریل میں اس نے پہلی مرتبہ چینی سرزمین پر فلسطین کے دو متحارب گروپوں حماس اور فتح کے درمیان مذاکرات کا اہتمام کیا تھا۔جبکہ گزشتہ سال خطے کے دو حریفوں ایران اور سعودی عرب کے درمیان مفاہمت کرانے کا تاریخی کارنامہ انجام دیا تھا۔
تجویز کردہ منصوبہ پہلے ہی عسکری گروپ حماس کے ساتھ مذاکرات کرنے والوں کو بھیجا جا چکا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے ”تمام فریقین کو جنگ بندی کے اس منصوبہ سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی‘‘ اور ”تمام یرغمالیوں کی رہائی، بلا روک ٹوک انسانی امداد کی فراہمی کی ضمانت اور بالآخر مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
یاد رکھیں کہ اس سے پہلےچینی وزارت خارجہ نے رفح پر اسرائیل کی فوجی کارروائیواں پر تشویش کا اظہار کیا تھااور متعلقہ فریقین سے لڑائی کو ختم کرنے کی اپیل کی تھی۔
یورپی کمیشن کی صدر اُرزولا فان ڈیئر لائن نے اس تجویز کو ”متوازن اور حقیقت پسندانہ‘‘ اور ”غزہ میں جنگ اور شہری مصائب کے خاتمے کی طرف بڑھنے کا ایک اہم موقع‘‘ قرار دیا ہے۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے حماس پر زور دیا کہ وہ اس معاہدے کو قبول کرے، ”تاکہ ہم لڑائی کا خاتمہ، یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں انسانی امداد کی وسیع فراہمی دیکھ سکیں۔‘‘ انہوں نے ایکس پر لکھا ہے، ”آئیے اس لمحے سے فائدہ اٹھائیں اور اس تنازعے کو ختم کریں۔‘‘حماس نےایک بیان میں کہا کہ وہ اس تجویز پر ”مثبت طور پر‘‘ غور کر رہی ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت انصاف آئی سی جے کی جانب سے فوجی کارروائیاں روک دینے کے حکم کے باوجود اسرائیلی فوج رفح پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ غزہ پٹی کے سرحدی شہر رفح میں فلسطینیوں نے شدید لڑائی کی اطلاع دی جبکہ اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے مصر سے منسلک پوری غزہ سرحد پر قبضہ کر لیا ہے۔حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت نےبتایا کہ اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسندوں کے درمیان جاری جنگ کے دوران اس علاقے میں اب تک کم از کم 36,224 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔وزارت کے بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید کم از کم 53 ہلاکتیں ہوئی ہیں، جبکہ سات اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں کے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے کے بعد سے غزہ کی پٹی میں 81,777 افراد زخمی بھی ہو چکے ہیں۔
چینی صدر شی جن پنگ نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے خاتمے کے لیے مشرق وسطیٰ امن کانفرنس منعقد کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ شی جن پنگ نے یہ بات عرب رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ شی جن پنگ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی، اماراتی صدر شیخ محمد بن زید النہیان اور کئی دیگر عرب رہنماؤں کی میزبانی کی ہے
گزشتہ روز اسرائیل نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس کی فورسز رفح کے وسط تک پہنچ گئی ہیں، جہاں اس کے فوجیوں نے حماس کے راکٹ لانچرز اور سرنگوں کا کھوج لگایا ہے اور اس گروپ کے ہتھیاروں کے ذخیرے کو تباہ کر دیا ہے۔ اسرائیل نے چھ مئی کو اس شہر پر زمینی حملہ کیا تھا اور وہ بنیادی طور پر اس کے مشرقی اضلاع اور مصر کے ساتھ سرحد کے قریب کارروائیاں کر رہا ہے اسرائیلی فوج کی ان کارروائیوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکتوں اور غزہ میں شہری ڈھانچے کی بڑے پمانے پر تباہی کے پیش نظر اسرائیل کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے