نئی حکومت کا پہلا بجٹ ملک معاشی حالات کے تناظر میں ایک بڑا چیلنج ہے,نئے مالی سال کا وفاقی بجٹ 10جون کو پیش کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔
وزارت خزانہ بجٹ تیاریوں کو حتمی شکل دے رہی ہے اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب 10 جون کو بجٹ پیش کریں گےبجٹ میں آئی ایم ایف شرائط کو شامل کیا جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ پیش کرنے والی ہے آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت کو کئی شعبوں میں ٹیکس چھوٹ مکمل طور پر ختم کرنا ہوگی۔
بجٹ کی تیاری ایسے وقت میں کی جارہی ہے جب حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (ائی ایم ایف) کے ایک اور پروگرام میں جانے کے لیے مذاکرات کررہی ہے۔حکومت کو ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے لوگوں کو سہولتیں ملیں لیکن دوسری جانب امیروں پر ٹیکس کے لیے سخت اقدامات کرنا اب ناگزیر ہوچکا ہے۔حکومت اپنے معاشی اہداف پورا کرنا چاہتی ہے تو زرعی آمدن، تجارت، کاروبار، رئیل اسٹیٹ، ڈیری فارمنگ، اور دیگر شعبوں سے وابستہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔ اور ان سے ان کی آمدن کے حساب سے ٹیکس اکٹھا کرنا ہوگا۔آئی ایم ایف پروگرام میں مزید پیش رفت کو قانون سازی اور پارلیمنٹ سے کئی اقدامات کی منظوری سے بھی جوڑا گیا ہے۔ ان اقدامات میں توانائی، پینشن، سرکاری کاروباری اداروں میں اصلاحات کے نفاذ، بجلی گیس کے نرخ، پیٹرولیم مصنوعات پر کاربن ٹیکس کے نفاذ اور ٹیکس سے متعلق اصلاحات شامل ہیں۔ حکومت نے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے کم کرنے کے اپنے منصوبے سے اور حکومت عملی سے عالمی مالیاتی ادارے کو آگاہ کیا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صرف توانائی سیکٹر میں خسارہ 2400 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے اور رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ میں اس میں 325 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔حکومت کو آئی ایم ایف کے مطالبے پر پاکستان کے بجٹ خسارے اور آمدن بڑھانے کے لیے ٹیکس میں اضافے کے لیے مختلف اقدامات کرنا ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق ان اقدامات کے نتیجے میں کئی ٹیکسز میں اضافہ اور بعض نئے ٹیکس لگنے کا بھی امکان ہے۔
مزید برآں، آٹو سیکٹر میں ایڈوانس ٹیکس کے نفاذ کی تجویز سامنے آئی ہے جس کے تحت گاڑی کی مالیت پر 10 فی صد نیا ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔اسی طرح دو ہزار سی سی سے زائد کی گاڑیوں پر پہلے سے موجود سالانہ ایڈوانس ٹیکس فائلرز کے لیے پانچ لاکھ روپے کیا جارہا ہے جب کہ نان فائلرز کے لیے یہ ٹیکس 24 فی صد مقرر کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ اس عمل سے حکومتی ریونیو میں تو اضافہ ہوگا مگر اس سے ملک میں گاڑیوں کی فروخت مزید کم ہو جائے گی۔
اس کے علاوہ کریڈٹ کارڈز پر بیرونی ادائیگیوں پر نان فائلرز کے لئے 20 فی صد ٹیکس عائد کیا جارہا ہے جو کہ اچھی تجویز ہے اور اس سے نان فائلرز کی بیرونی اخراجات کی حوصلہ شکنی ہو گی۔دوسری جانب کریڈٹ کارڈز سے بیرونی ادائیگیاں کرنے والے فائلرز کے لیے ایڈوانس ٹیکس ختم کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔
ایسا کرنے سے زرمبادلہ کے آوٹ فلو میں اضافہ ہوسکتا ہے۔یہ یاد رکھیں کہ اسی طرح اگر آپ ملک سے باہر بزنس کلاس میں سفر کررہے ہوں گے تو آپ کو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے بجائے اب فکس ٹیکس دینا ہوگا جو روٹس کی مناسبت سے طے کیا جائے گا۔اس پر کم سے کم ٹیکس 75 ہزار روپے سے ڈھائی لاکھ روپے تک رکھنے کی تجویز ہے۔
اسی طرح ایک تجویز کے مطابق بینکوں سے کیش نکالنے پر نان فائلرز کے لیے ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جارہا ہے اور اب اس کے لئے نئی شرح اعشاریہ نو فیصد مقرر کی جارہی ہے۔ جو پہلے اعشاریہ چھ فی صد تھی۔ اس سے نہ صرف حکومت کے محصولات میں اضافہ ہو گا وہیں نان فائلرز کو فائلرز بننے کی ترغیب ملے گی اور کیش پر کاروبار کی حوصلہ شکنی ہوگی۔وفاقی حکومت نے زرعی آمدنی، نان کارپوریٹ کاروبار، سروس پروائڈرز بلڈرز اور کنسٹرکشن فرمزپر بھی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اسی طرح ایک اور تجویز کے تحت بجلی کے دو لاکھ سے زائد والے بلز پر نان فائلرز صارفین کے لیے ایڈوانس انکم ٹیکس کی شرح 20 فی صد تک کی جارہی ہے۔دوسری جانب حکومت نے بجلی اور گیس کے ایسے نان فائلرز صارفین پر بھی ٹیکس کی شرح 30 فی صد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کمرشل اور انڈسٹریل کنکشنز رکھتے ہیں۔ ایسا کرنے سے حکومت کے محصولات میں اضافہ ہےبجٹ کے لیے سیلز ٹیکس کے ساتھ ایکسٹرا سیلز ٹیکس نافذ کرنے کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔
شادی ہالز کا بل دو لاکھ روپے سے زائد ہونے کی صورت میں 25 فی صد میرج ہالز ٹیکس بھی لینے کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔ اس عمل سے حکومتی ریونیوز میں تو خاطر خواہ اضافہ ہوگا لیکن اس سے مہنگائی بھی بڑے گی,پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم لیوی کے ساتھ اب حکومت نے ایک بارپھر 18 فی صد جنرل سیلز ٹیکس لاگو کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔اس عمل سے جہاں مہنگائی بڑھے گی وہیں پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں بھی خاطر خواہ کمی ہوسکتی ہے۔حکومت نے اپنی آمدن بڑھانے کے لیے اس بار ادویات پر بھی 10 سے 18 فی صد جنرل سیلز ٹیکس نافذ کرنے کی تیاری کررہی ہے۔
رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے حکومت کئی تجاویز پر سوچ بچار کررہی ہے۔ زرعی زمین اور پراپرٹی پر اعشاریہ پانچ فی صد ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور شہری علاقوں میں 450 گز سے زائد کی پراپرٹی فروخت کرنے پر نان فائلرز کو ساڑھے 10 فی صد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔تاہم سریے کی فروخت پر عائد ٹیکس چار فی صد ٹیکس ختم کیا جارہا ہے۔ ٹیکس تجاویز سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئی ایم کی شرائط پوری کرنے کے لیے حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اپنے محصولات بڑھائے اور قرضوں پر انحصار کم کرے۔ لیکن اس کے لیے حکومت کا انحصار ایک بار پھر براہ راست ٹیکس کے بجائے بالواسطہ ٹیکس پر زیادہ نظر آتا ہے۔ آئندہ مالی سال 2024-25 کے لیے مجموعی طور پر وفاق اور صوبوں کا ترقیاتی بجٹ 2709 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔آئندہ بجٹ کے لیے سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک کے حکام، صوبائی حکومتوں سمیت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔
اجلاس میں پی ایس ڈی پی کی مد میں 1221 ارب روپے، انفراسٹرکچر کے لیے 877 ارب روپے، انرجی کے ترقیاتی پروگرامز کے لیے 378 ارب روپے، ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونیکیشن کے لیے 173 ارب روپے، واٹر ریسورسز کے لیے 284 ارب روپے اور فزیکل پلاننگ اینڈ ہاؤسنگ کے لیے 42 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔پلاننگ کمیشن نے سوشل سیکٹر کے لیے مجموعی طور پر 83 ارب روپے، ہیلتھ کے لیے 17 ارب اور تعلیم کے لیے 32 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی ہے جبکہ ایس ڈی جیز کے لیے کوئی بجٹ مختص نہیں کیا۔آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے 51 ارب روپے اور ضم شدہ اضلاع کے لیے 57 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے لیے 104 ارب روپے، پروڈکشن سیکٹر کے لیے 21 ارب روپے، فوڈ اینڈ ایگریکلچر کے لیے 14 ارب روپے اور صنعتوں کے لیے 7 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی۔پلاننگ کمیشن کی دستاویز کے مطابق آئندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی گروتھ کا تخمینہ 3.6 فیصد لگایا گیا، رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ 2.4 فیصد ریکارڈ ہوئی جبکہ 3.5 فیصد کا جی ڈی پی گروتھ کا ہدف حاصل نہ ہو سکا۔
آئندہ مالی سال کے لیے زرعی شعبے کی گروتھ کا ہدف 2.0 فیصد، صنعتی شعبے کی گروتھ کا ہدف 4.4 فیصد، سروسز شعبے کی گروتھ کا ہدف 4.1 فیصد، لائیو اسٹاک کی پیداوار کا ہدف 3.8 فیصد، فشریز کی پیداوار کا ہدف 3.2 فیصد اور جنگلات کے لیے پیداوار کا ہدف 3.1 فیصد مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔مینوفیکچرنگ شعبے کے لیے پیداواری گروتھ کا 4.4 فیصد رکھنے کی تجویز ہے جبکہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کے لیے گروتھ کا ہدف 3.5 فیصد اور سمال اینڈ ہاؤس ہولڈ کے لیے پیداوار کا ہدف 8.2 فیصد مقرر کرنے کی تجویز دی گئی۔ملک بھر میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں تقریباً 6 روپے 50 پیسے سے 7 روپے 50 پیسے تک کمی کا امکان ہے۔ یہ یاد رکھیں کہ مالی سال 2024 کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران ہول سیل اور ریٹیل کے شعبے سے منافع کی بیرون ملک منتقلی 21 کروڑ 35 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی، جو گزشتہ برس صرف 48 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھی، جس سے مالی سال 2023 میں سخت پالیسی ظاہر ہوتی ہے۔رواں برس 9 ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر اور اس معاملے میں آئی ایم ایف کی ممکنہ مداخلت کی وجہ سے اس سال منافع کی بیرون ملک منتقلی سے نرم پالیسی ظاہر ہوتی ہے۔آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق اسٹیٹ بینک کو مالی سال 2024 کے اختتام تک زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب ڈالر تک برقرار رکھنے ہیں۔ رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری پر نفع اور ڈیوڈنڈز کی بیرون ملک منتقلی میں سالانہ بنیادوں پر 251 فیصد کا اضافہ ہوا۔
اس کے علاوہ ملک بھر میں فی تولہ سونا 6 ہزار 200 روپے سستا ہوگیا ہے قیمت میں بڑی کمی کے بعد فی تولہ سونا 2 لاکھ 42 ہزار روپے کا ہو گیا ہے۔اسی طرح 10 گرام سونے کی قیمت کمی کے بعد 2 لاکھ 7 ہزار 475 روپے ہو گئی ہے
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024 میں جولائی تا اپریل کے دوران 88 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کا منافع بیرون ملک منتقل کیا گیا، جس کا حجم گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران 25 کروڑ 30 لاکھ ڈالر رہا تھا۔مرکزی بینک نے ترسیلات زر باہر جانے میں نرمی کی ہے، رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران ملک میں ایک ارب 45 کروڑ ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی۔ مزید تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ اپریل میں منافع کی بیرون ملک منتقلی 8 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے ماہانہ اوسط کے برعکس محض 5 کروڑ 60 لاکھ ڈالر رہی، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ مرکزی بینک اب بھی کوشش کررہا ہے کہ 30 جون کو مالی سال کے اختتام تک ڈالرز کو ملک میں رکھا جاسکے۔
رواں برس غیرملکی سرمایہ کار پر منافع کی بیرون ملک منتقلی 81 کروڑ 10 لاکھ ڈالر رہی۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر سے سب سے زیادہ منافع بیرون ملک منتقل ہوا، اس میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں واضح فرق دیکھا گیا، مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024 کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران مینوفیکچرنگ سیکٹر سے 22 کروڑ 69 لاکھ ڈالر کا منافع اور ڈیوڈنڈ باہر بھیجا گیا، جس کا حجم گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران 3 کروڑ 4 لاکھ ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔
دوسری طرف بجٹ سے پہلے وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کا اعلان کرتے ہوئے پیٹرول 15 روپے 39 پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں 7 روپے 88 پیسے کمی کا اعلان کیا۔
آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے منظوری کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 15 دنوں کے دوران عالمی مارکیٹ میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت بالترتیب 3.25 ڈالر اور 2.10 ڈالر فی بیرل کم ہوئی ہے، جبکہ اس سے پچھلے 15 دنوں میں 8.7 ڈالر اور 4.3 ڈالر فی بیرل کی تنزلی ہوئی تھی۔ واضح رہے کہ اس وقت پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 273 روہے 10 پیسے اور فی لیٹر ڈیزل 274 روپے 8 پیسے میں دستیاب ہے۔اس سے قبل 30 اپریل کو حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں 5 روپے 45 پیسے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت میں 8 روپے 42 پیسے فی لیٹر کمی کا اعلان کیا تھا۔
اس سے 15دن قبل حکومت نے 16 اپریل کو پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 4 روپے 53پیسے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 8 روپے 14 پیسے فی لیٹر کا اضافہ کیا تھادوسری طرف اوگرا نے یکم جون سے ایل پی جی سستی کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا ہے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر 45 روپے 62 پیسے سستا کیا ہے۔ اوگرا نے یکم جون سے ایل پی جی سستی کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کیا ہے۔ یکم جون سے ایل پی جی 3 روپے 86 پیسے فی کلو سستی کردی گئی ہے جس کے بعد ایل پی جی کی فی کلو نئی قیمت 234 روپے 59 پیسے مقرر کی گئی ہے۔
ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر 45 روپے 62 پیسے سستا کر دیا گیا ہے، جس کے بعد ایل پی جی کے 11.8 کلو گرام کے گھریلو سلنڈر کی نئی قیمت 2768 روپے 23 پیسے مقرر کردی گئی ہے۔دوسری طرف پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری ہفتے کے آخری روز تیزی کا رجحان دیکھا گیا، بینچ مارک کے ایس ای-100 انڈیکس میں 1000 پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ پی ایس ایکس ویب سائٹ کے مطابق کے ایس ای-100 انڈیکس ایک ہزار پوائنٹس یا 1.32 فیصد اضافے کے ساتھ 75 ہزار 878 کی سطح پر بند ہوا، جو گزشتہ روز 74 ہزار 878 پر بند ہوا تھا۔واضح رہے کہ 24 مئی کو بینچ مارک کے ایس ای-100 انڈیکس 76 ہزار پوائنٹس کی نئی بُلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔ 10 مئی کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مثبت رجحان دیکھا گیا تھا جب ابتدائی ٹریڈنگ کے دوران ہی بینچ مارک کے ایس ای-100 انڈیکس میں 427 پوائنٹس اضافے سے 73 ہزار کی نفسیاتی حد بحال ہو گئی تھی۔ اس دوران انٹر بینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں مزید 10 پیسے بہتری کے بعد 278 روپے 20 پیسے پر پہنچ گئی۔ رپورٹ کے مطابق انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر جمعہ کو بڑھ کر 278 روپے 20 پیسے ہوگئی، جو اس سے ایک روز قبل 278 روپے 30 پیسے پر ریکارڈ کی گئی تھی۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت خرید اور قیمت فروخت بالترتیب 277 روپے 50 پیسے اور 280 روپے 20 پیسے ریکارڈ کی گئی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق جمعہ کو روپے کے مقابلے میں یورو کی قدر 51 پیسے کمی کے ساتھ 301 روپے 16 پیسے پر بند ہوئی۔ اسی طرحجاپانی ین بغیر کسی تبدیلی کے 1.77 روپے پر بند ہوا، جبکہ برطانوی پاؤنڈ 51 پیسے سستا ہو کر 353 روپے 34 پیسے پر ٹریڈ ہوا۔دوسری طرف فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے دعویٰ کیا ہے کہ 7 ہزار167 افراد نے اپنی موبائل سمز بلاک ہونے کے بعد مالی سال 2023 کے لیے اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے ہیں جس کے بعد ان کی سمز بحال کردی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے 14 مئی سے تین بڑی ٹیلی کام کمپنیوں (ٹیلی نار، یوفون اور جاز) کو تقریباً 60 ہزار نان فائلرز کے شناختی کارڈ نمبر بھیجے تھے تاکہ ان افراد کی سم کارڈز کو بند کیا جائے.
تاہم ایف بی آر نے ان 60 ہزار نان فائلرز کے نمبرز سے متعلق معلومات شیئر نہیں کیں,موجودہ حکومت کی کوشش ہے کہ معاشی بحالی کے حوالے سے آئی ایم ایف کی جاری کردہ ہدایات اور تمام شرائط کو پورا کیا جائے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حالیہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرکزی بینک نے غیر ملکی سرمایہ کاری پر منافع اور ڈیوڈنڈ کی بیرون ممالک منتقلی میں نرمی کردی ہے مالی سال 2024 کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران 75 کروڑ 92 لاکھ ڈالر کا منافع باہر منتقل ہوا، جس کا حجم گزشتہ برس کی اسی مدت کے دوران 22 کروڑ 50 لاکھ ڈالر رہا تھا، یہ 53 کروڑ 42 لاکھ ڈالر یا 237.4 فیصد اضافہ ہے۔