هفته,  23 نومبر 2024ء
گندم کی کاشت و کٹائی ، کسان و مزدور مالی مشکلات کا شکار ، خواتین بھی دہائیاں دینے لگیں

 

کراچی (روشن پاکستان نیوز)گندم کی کٹائی کا عمل جاری ہے ۔سندھ میں گندم کی کٹائی میں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین بھی کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔ گندم کی بالیاں جب خشک ہو جاتی ہیں تو بہت سخت ہو جاتی ہیں انہیں کاٹنا خواتین کے لیے آسان کام نہیں ہوتا دوسرا کوئی روزگار نہ ہونے اور غربت کی وجہ سے مجبورا دہی علاقوں کی خواتین گندم کی کٹائی جیسا سخت کام کرتی ہیں تاکہ کچھ رقم کما کر اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔

صوبہ سندھ اس وقت شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے کئی اضلا درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا ہے کھیتوں میں کام کرنے والی بیشتر خواتین کے ساتھ سارا دن کی سخت محنت اور گرمی کی وجہ سے بیمار ہو گئی ہیں۔

سندھ کی خواتین کی اجرت کیا؟

صوبہ سندھ کی ایک مقامی کسان شاہل خاتون کے مطابق اس بار مردوں کو گندم کی کٹائی کی اجرت 800 سے ایک ہزار روپے یومیہ جبکہ خواتین کسانوں کو 400 روپے یومیہ دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ جو دوچار من گندم ایک ماہ تک کھیتوں میں گندم کی کٹائی کا کام کر کےعوض ملی ہے اسے گھر میں استعمال کر رہے ہیں ،جب یہ گندم ختم ہو جائے گی تو میرا بیٹا محنت مزدوری سے کما کر پیسے لائے گا اور پھر اس رقم سے ہم گھر کا خرچہ چلائیں گے میرا شوہر بوڑھا اور بیمار بھی ہے وہ کام نہیں کر سکتا،گندم کی کٹائی کے پیسے بہت کم طے کیے گئے تھے اسی لیے گندم بطور معاوضہ ملی یہ گھر کے خرچے کے لیے صحیح ہے اور اس کے بعد پھر کوئی اور فصل تیار ہوگی اور پھر ہم مزید کام کریں گے

عوام کی دہائیاں

گندم کی کٹائی کرنے والی ایک اور خاتون نصیبہ نے کہا کہ ہم گندم کی کٹائی کرنے کھیتوں میں گئے تھے پورا ایک مہینہ کام کیا ہے ہمیں معاوضے میں گندم کم دی گئی بس دو تین من اور پیسے بھی ملنے چاہیے تھے انہوں نے کہا کہ جتنی عورتوں نے گندم کی کٹائی کا کام کیا وہ سب رو رہی ہیں ہاتھ گندم کی کٹائی کر کے سوجھ گئے ہیں انگلیاں پک گئی ہیں اور گرمی کی وجہ سے حال برا ہے پاکستان میں گزشتہ سال 26 ملین ٹن سے زائد گندم پیدا ہوئی

زمیندار کہتے ہیں کہ صوبہ سندھ کے تمام اضلاع میں اس سال گندم کی فصل گزشتہ سال سے بہتر ہوئی ہے وہ کہتے ہیں کہ مقرر کردہ سرکاری ڈیٹ کے حساب سے گندم نہیں خریدی جا رہی ہے ان کے پاس گندم ذخیرہ کرنے کے لیے جگہ بھی نہیں ہے اس لیے وہ ایک من گندم چار ہزار روپے کے بجائے 3 ہزار روپے میں فروخت کر رہے ہیں۔
زرعی ریٹ پر بیوپاری نہیں لے رہے،اصل جو کما رہے ہیں وہ بیوپاری کما رہے ہیں اگر یہ پوزیشن رہی تو کوئی گندم نہیں لے گا پھر باہر ملک ہی سےگندم منگوانی پڑے گی

ایک اور مقامی کسان نے کہا کہ پہلے بھی نقصان تھا ابھی بھی نقصان ہے۔ سارا دن ٹیوب ویل چلتا ہے،جس کی وجہ سے 25 سے 30 لیٹر ڈیزل کا خرچ آ جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ وہ ایک ایکڑ سے دو ایکڑ گندم کو پانی پورا ہوتا ہے ہم تو پریشان ہیں ٹریکٹر کا خرچہ بھی ہے ہمارا اٹریکٹر کا خرچہ بھی ہے انہوں نے کہا کہ گندم کاٹنے کا خرچہ ہمارا ہے پریشر مشین کا بھی خرچہ الگ ہے ۔

انہوں نے کہا گندم بیرون ملک بھی سمگل ہوتی ہے اس وجہ سے داخلی سطح پر گندم کی قلت پیدا ہوئی اور پاکستانی حکومت کو مہنگے داموں گندم ممالک سے خریدنی پڑی جس سے آٹے کی قیمت میں اضافہ ہو،ا رواں سال سرکاری نرخ نہ ملنے کی وجہ سے گندم کی بہترین فصل بھی انہیں کاشت کر بنانے والے کسانوں کو خوشحال نہ کر سکی۔

مزید خبریں