هفته,  23 نومبر 2024ء
پاکستان میں اسلامی بینکاری کا تاریخی ارتقاء اور دور حاضر کی ترقی. ……علامہ سید محسن علی….

تحریر:اصغر علی  مبارک

پاکستان میں ایک مرتبہ پھر اسلامی بینکاری کا نظام زیرِ بحث ہے۔ آئین پاکستان کی شق 38 (ف) کے تحت ’ربا‘ کا ’جلد از جلد خاتمہ‘ لازم قرار دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے 28 اپريل 2022 کو سود پر مبنی معاشی نظام کو اسلامی شریعت کے برخلاف قرار دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ملک کے بینکاری نظام کو دسمبر 2027 تک مکمل طور پر سود سے پاک کیا جائے۔ شرعی عدالت نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ تمام قرض سود سے پاک نظام کے تحت لیے جائیں۔ سود پر مبنی نظام کے خلاف یہ درخواستیں 19 برس سے زیرِ سماعت تھیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل سنہ 1992 میں بھی وفاقی شرعی عدالت حکومتِ پاکستان کو حکم دے چکی تھی کہ ملک کے نظام کو چھ ماہ میں سود سے مکمل طور پر پاک کیا جائے۔ ربا کا عمومی تصور ایسے سود کا ہے جو کسی قرض کے بدلے حاصل کیا جائے۔ اسے اسلامی بینکاری میں استحصال پر مبنی تصور کیا جاتا ہے اور وفاقی شرعی عدالت نے کہا ہےکہ بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول ربا کے زمرے میں آتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں پاکستان کی نئی وفاقی حکومت عدالتی ہدایت پر عمل درآمد کے لیے تیار ہے؟ اورکیا اگلے تین برس میں سود سے مکمل طور پر پاک بینکاری رائج کرنا ممکن ہے؟ مالیاتی نظام کواس حوالے سے تبدیل کرنا آسان کام نہیں کیونکہ پاکستان میں فی الوقت قرضوں کے لین دین سے متعلق جو بھی قوانین ہیں وہ روایتی یا کنونشنل بینکاری پر مبنی ہیں۔

اسلامی بینکاری کی فنانسنگ بھی ان ہی قوانین کے تحت جاری کی جاتی ہے، تبدیلی یہ کی جاتی ہے کہ روایتی بینکاری میں اسے قرض قرار دیا جاتا ہے جبکہ اسلامی بینکاری میں اثاثے کی ملکیت بینک اور صارف مشترکہ طور پر کر لیتے ہیں اور شراکت داری کے اصول کو اپنایا جاتا ہے۔ اسلامی بینکاری کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جب بھی کوئی قرض جاری کیا جائے تو اس کی بنیاد پر کوئی اثاثہ بطور گارنٹی موجود ہو۔ اس کی مثال یہ ہےکہ جیسے حکومت کی جانب سے سکوک بانڈز جاری کیے جاتے ہیں جن میں حکومت اپنا کوئی اثاثہ بطور گارنٹی رکھ کر بینکوں اور دیگر قرض خواہوں سے قرض حاصل کرتی ہے۔اس کے بدلے جاری کیے جانے والے ٹریژری بلز اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز یعنی پی آئی بی کی پشت پر صرف حکومت کی ساکھ ہوتی ہے جس کے تحت قرض حاصل کیا جاتا ہے۔ بہت سے عام صارفین کا سوال ہوتا ہے کہ اسلامی بینکاری آخر کتنی اسلامی ہے۔ اسلامی بینکاری جب بھی کسی گاڑی یا کسی گھر کی فنانسنگ کرتی ہے، تو اس کی بنیادی شرحِ منافع انٹربینک آفرڈ ریٹ (کائبور) کی بنیاد پر طے ہوتی ہے۔ چاہے کوئی قرض روایتی بینک سے لیا جائے یا پھر کسی اسلامی بینک سے کسی اثاثے کے لیے فنانسنگ کی جائے، صارف بینک کو کتنے پیسے دے گا اس کی شرح انٹربینک آفرڈ ریٹ سے ہی طے ہوتی ہے۔ بینک عموماً انٹربینک آفرڈ ریٹ کے اوپر کچھ فیصد رقم اضافی چارج کرتے ہیں جو صارف کو ہر ماہ ادا کرنے ہوتے ہیں یہاں تک کہ اُن کا قرض مکمل طور پر ادا نہیں ہو جاتا۔اگر بینکاری کو مکمل طور پر اسلامی ہونا ہے تو اگر کوئی شخص اسلامی بینک کی اجارہ پراڈکٹ کے ذریعے لینڈ کروزر خریدتا ہے اور ایک کوئی عام گاڑی خریدتا ہے تو دونوں کا ’رینٹل‘، یعنی وہ ماہانہ رقم جو صارف نے بینک کو ادا کرنی ہوتی ہے اس کی شرح ایک ہی جتنی طے ہوتی ہے حالانکہ اس میں فرق ہونا چاہیےڈمینشنگ مشارکہ کی بنیاد پر اگر گھروں کی فنانسنگ کی جارہی ہے تو مہنگے اور سستے علاقوں میں لیے جانے والے گھروں کے درمیان شرحِ منافع میں فرق ہونا چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ڈمینشنگ مشارکہ وہ اصول ہے جس کی بنا پر اسلامی بینکاری میں گھروں کی فنانسنگ کی جاتی ہے۔ فنانسنگ کی قیمت کو اس کے دورانیے پر تقسیم کر کے ’یونٹس‘ تیار کیے جاتے ہیں اور بینک اور صارف مشترکہ مالک بن جاتے ہیں۔ پھر ہر قسط کی ادائیگی پر مذکورہ شخص ایک یونٹ کا مالک بنتا جاتا ہے یہاں تک کہ آخر میں آ کر صارف گھر کے تمام یونٹس لے لیتا ہے اور یوں گھر اس کے نام ہو جاتا ہے۔ اسلامی بینکاری کا نظام انٹربینک آفرڈ ریٹ کا اسلامی متبادل کتنی جلدی تیار کرے گا اور کتنی جلدی نافذ کرے گا کیونکہ یہی پورے بینکاری نظام کی بنیاد ہے۔ اگر اسلامی بینکاری کرنی ہے تو پھر نیا بینچ مارک یعنی انٹربینک آفرڈ ریٹ کائبور تیار کرنا پڑے گا۔ وفاقی شرعی عدالت 1992 میں بھی حکومتِ پاکستان کو حکم دے چکی تھی کہ ملک کے نظام کو سود سے پاک کیا جائے۔ وفاقی شرعی عدالت کے اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کے فیصلے پر عملدرآمد اس لیےنہیں ہوا تھا کیونکہ اس وقت اسلامی بینکاری اتنی زیادہ نہیں تھی لیکن آج اسلامی بینکاری بہت زیادہ ترقی پا چکی ہے۔نئی وفاقی حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ قرضوں کو نئے خطوط پر کیسے استوار کرے گی۔ اگر سکوک جاری کیے جائیں گے تو ان کے لیے اثاثے درکار ہیں حکومت کے پاس اتنے اثاثے نہیں کہ وہ زیادہ تعداد میں سکوک جاری کر سکے۔شرعی عدالت کے فیصلے کے تناظر میں اسلامی بنیادوں پر معاشی نظام اگر رائج کرنا ہے تو اس کے لیے بینکاری عدالتوں، ثالثی کے قوانین، بینکنگ کمپنیز آرڈیننس اور مرکزی بینک کے نظام میں ترامیم کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ایک قومی پالیسی سازی کرنی ہو گی اور2027 تک اس پر پیش رفت کی جا سکتی ہے۔اسلامی بینکاری نظام روایتی نظام کے اندر کسی حد تک موجود ہے اور اگر مکمل طور پر قانون سازی اور پالیسی سازی کی جائے تو مزید ایسی پراڈکٹس بنائی جا سکتی ہیں جو سود کے بجائے تجارت کے اصولوں پر قائم ہوں کیونکہ اسلامی بینکاری پرعام اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ صرف الفاظ کی تبدیلی ہے اور حقیقت میں اس میں اور روایتی بینکاری میں فرق نہیں ہے, پاکستان معیشت روایتی نظام پر چل رہی ہے تو اس کے اندر مکمل طور پر اپنا الگ تھلگ نظام نہیں بنا سکتے لیکن متبادل پراڈکٹس کی طلب ضرور پیدا کر سکتے ہیں۔ حکومت کو اس حوالے سے فریم ورک میں اصلاحات کرنی پڑیں گی, یہ پیش رفت اگر سو فیصد نہ بھی ہو تب بھی وقت کے ساتھ یہ ارتقا پا کر مزید بہتر ہو سکتا ہے۔واضح رہے کہ اسلامی بینکاری کی ریسرچ کے حوالے سے پاکستان کا شماربانیوں میں ہوتا ہےماضی میں پاکستان میں اسلامی بینکوں کو یہ مشکل درپیش تھی کہ انہیں پاکستان کےقانون کے تحت اپنے اثاثوں کی جو انشورنس کروانا تھی، اس کے لئے پاکستان میں اسلامک انشورنس کمپنیاں وجود میں نہیں آئی تھیں لیکن اب پاکستان میں اسلامی انشورنس کمپنیاں وجود میں آچکی ہیں۔

 

اسلامی اور سودی بنکاری میں ظاہری طریقہ کار میں یکسانیت کی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں نظام ایک جیسے ہیں، صرف نام بدلنے سے کیا فرق پڑتا ہے لیکن ایسا نہیں بلکہ ان دونوں نظاموں میں واضح فرق ہے۔
اسلام میں سود کو حرام اور اللہ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے اور سودی نظام کے ذریعے چلائے جانے والے بزنس دراصل آخرت کے لئے عذاب اور جہنم کمانے کا ذریعہ ہیں۔

اسلامی بینکاری اور سودی نظام میں اختلاف اس نقطہ پر ہے کہ دولت کا اصل مالک کون ہے۔

اسلام کہتا ہے کہ دولت کا حقیقی مالک صرف اللہ ہے، انسان صرف اس کا امانت دار اور اسے استعمال کرنیوالا ہے،

یہی وجہ اسلامی نظریہ دولت کی منصفانہ تقسیم کا سبب اور طے شدہ منافع کیخلاف ہے جبکہ اس کے برعکس سودی نظام کا مقصد معاشی انارکی، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور طے شدہ منافع کو فروغ دے کر انسانی فلاح و بہبود کو نقصان پہنچانا ہے۔اسلامی مالیاتی نظام دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہورہا ہے اور اگر سود سے مکمل نجات حاصل کرلی جائے تو مسلمان معاشرتی و معاشی ناانصافی اور استحصال سے آزاد ہوجائیں گے۔

پاکستان کے آئین میں سود سے پاک مالیاتی نظام قائم کرنے پر زور دیا گیا ہے اور اسٹیٹ بینک میں اصلاحات کے باعث کئی بینک اسلامی بینکاری سے منسلک ہوگئے ہیں جس سے ملک میں اسلامی بینکاری کا نظام تیزی سے فروغ پارہا ہے۔

پاکستان میں اسلامی بینکاری کا نظام 1980ء میں قائم ہوا تھا اور اب ملک میں اسلامی بینکاری انڈسٹری 30% سالانہ کی شرح سے ترقی کررہی ہے جبکہ مجموعی بینکاری میں اسلامی بینکاری کا حصہ 10% اور اثاثوں کا حجم 8.5 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ اسٹیٹ بینک حکام کے مطابق اس وقت ملک میں 6 اسلامک بینک روایتی پراڈکٹس کے ساتھ خالصتاً اسلامی مالیاتی پراڈکٹس فراہم کررہے ہیں جن کی ملک بھر میں 200 سے زیادہ شاخیں کام کررہی ہیں، اس طرح ملک میں اسلامک بینکاری انڈسٹری کے اثاثے 568ارب روپے اور ڈپازٹ کی مالیت 463 ارب روپے ہوچکی ہے۔ حکام کے مطابق اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو واضح ہدایت کی ہے کہ مخصوص اسلامی بینکاری شاخوں میں فنڈ، سسٹم اور کنٹرول کو روایتی بینکاری سے مکمل طورسے علیحدہ رکھا جائے۔

دنیا بھر میں اس وقت 90 اسلامی بینکوں کی 1200 برانچیں، 27 مضاربہ اور 15 اسلامک میوچل فنڈز ہیں اور اسلامی بینکاری کی مجموعی مالیت 16 کھرب 31 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے،

 

اسلامی بینکاری انڈیکس میں ایران پہلے، ملائیشیا دوسرے، سعودی عرب تیسرے اور پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی بینکاری میں زراعت اور ایکسپورٹ فنانسنگ میں نئے پروڈکٹس متعارف کرائے جائیں کیونکہ غریب کاشتکار اب بھی مڈل مین سے 30% سے 35% شرح سود پر قرضے لے رہا ہے، اس طرح کاشت کے بعد اس کی تمام آمدنی ایڈوانس میں لئے گئے قرضوں اور سود کی ادائیگی میں ختم ہوجاتی ہے

اسلامی بینکاری نظام انصاف اور برابری کے بنیادی اصولوں کے عین مطابق ہے جبکہ اس کے برعکس سودی بینکاری نظام کے سبب آج امریکہ، یورپ اور یونان جیسے ممالک مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔اگر ہم نے اسلامی بینکاری نظام اپنالیا تو اللہ تعالیٰ نہ صرف ہمارے رزق میں خیر و برکت عطا فرمائے گا بلکہ ہمارا یہ عمل اللہ اور رسولﷺ کی خوشنودی کا سبب بھی بنے گا اور اس طرح ہمارا معاشرہ سود جیسی لعنت سے بھی چھٹکارا حاصل کرلے گا ۔

مزید خبریں