تحریر:اصغرعلی مبارک
پاکستان میں آئندہ سال خوراک کی قلت پیدا ہونےکا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ پنجاب حکومت نے آئندہ برس گندم نہ خریدنے کا فیصلہ کیا ھےاور صوبے میں گندم کی خریداری سے متعلق نئی پالیسی بھی تشکیل دی جائے گی۔ پنجاب حکومت نے آئندہ برس گندم نہ خریدنے کا فیصلہ کرتے ہوئے صوبائی محکمہ خوراک نے کسانوں کی ایک لاکھ 19 ہزار درخواستیں واپس کردی ہیں ۔پنجاب حکومت نے گندم کی خریداری کے معاملے پر میدان میں آتے ہوئے نئی پالیسی تشکیل دینے کا منصوبہ بنایا ھے دعویٰ کیا گیا ہے پنجاب کے 95فیصد کسان اپنی گندم مڈل مین کو فروخت کر چکے ہیں اور کسان کا نام لے کر مڈل مین شور مچا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق کسانوں سے گندم خریداری کا معاملہ پرائیویٹ سیکٹر پر چھوڑ دیا جائے گا۔
کیونکہ پنجاب حکومت کے پاس ایک سال کی گندم کا اسٹاک موجود ہے اور ایک اندازے کے مطابق 22 لاکھ 70ہزار ٹن گندم خزانے میں موجود ہے۔ وفاقی حکومت نے دعویٰ کیا کہ گندم کی خریداری کا ہدف پورا کریں گے اور واضح کیا کہ باردانہ کی فراہمی کیلئے آن لائن درخواستوں کی وصولی کا سلسلہ جاری ہے۔دوسری جانب کسان بورڈ پاکستان نے 16مئی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے دفتر کے گھیراؤ کا اعلان کیا ہے۔ خدشہ ھے کہ نئی پالیسی سے اس سال پیدا ہونے والے گندم بحران کے بعد اگر کسان گندم کاشت نہیں کرے تو گندم کہاں سے آئے گئی۔ پنجاب حکومت نے سال 2023-2024 کے لیے گندم کی امدادی قیمت 3 ہزار 900 روپے فی من مقررکی ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت مقرر کرنے کی منظوری پنجاب کابینہ کے اجلاس میں دی گئی۔ پنجاب حکومت کی جانب سے اس سال گندم کی امدادی قیمیت 3ہزار9 سو روپے مقر ہے جبکہ سرکاری سطح پر کسانوں سے گندم خریدنے کے لئے کوئی باقاعدہ ہدف بھی مقرر نہیں کیا گیا ۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پاس وافر گندم موجود ہے تو پھر اس کا فائدہ عوام کو کیوںنہیں ہو رہا ، پنجاب حکومت کی جانب سے اس سال سرکاری باردانہ کے اجرا کی حد12 ایکڑ سے کم کرکے 6 ایکڑ مقررکی گئی ہے، ماضی میں فی ایکڑ 10 بوری باردانہ دیا جاتا تھا، جسے کم کرکے محض 6 بوری کر دیا گیا ہے، گزشتہ سال کسانوں کو فی بوری 60 روپے ٹرانسپوٹیشن چارجز دئے گئے تھے، جنہیں اس مرتبہ کم کرکے 30 روپے فی بوری کر دیا گیا ہے جبکہ ایک سال کے دوران ٹرانسپوٹیشن چارجز دگنے ہو چکے ہیں گزشتہ برس پنجاب حکومت نے کسانوں سے 45 لاکھ ٹن گندم خریدی تھی، 2023 کے لئے گندم کی سرکاری خریداری کا مجموعی ہدف 78 لاکھ ٹن مقرر کیا گیا تھا، تاہم اس مرتبہ پاسکو 14 لاکھ ، سندھ 10 لاکھ جبکہ بلوچستان 50 ہزار ٹن گندم کسانوں سے خریدے گا،یعنی مجموعی طورپر ساڑھے 24 لاکھ ٹن گندم خریدی جائے گی، وزارت نیشل فوڈ سیکورٹی نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کومتنبہ کیا ہے کہ گندم کے مجوزہ اہداف صوبائی ضروریات پوری کرنے کے لئے ناکافی ہیں اور اس بار ہدف کیوں نہیں رکھا گیا کسان نے اگلی فصل کیلئے زمین کی بوائی بھی کرانی ہے گندم کاٹ کر وہ اسے سٹور تو کر نہیں سکتا اس لئے وہ اونے پونے داموں اپنی گندم بیچنے پر مجبور ہے جسے آڑھتی مافیا فلور مافیا کے ساتھ مل کر خرید رہا ہے تاکہ بعد میں جب گندم کا بحران پیدا ہو تو اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور باردانہ کی حد بھی کم کر کے چھ ایکڑ کر دی گئی ہے اب جس کے پاس سات ایکڑ زمین ہے وہ بھی 500 روپیہ فی بوری خریدنے پر مجبور ہے۔ مافیا حکومت کو اندھیرے میں رکھ کر کسان کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پاکستان میں غذائی بحران پیدا کیا جا سکے۔
دوسری جانب کسان پنجاب حکومت کی اس نئی گندم پالسی کومعاشی قتل قرار دے رہے ہیں، کسانوں کا موقف ہے کہ آٹا مافیا اور مڈل مین کو فائدہ پہنچانے کے لئے کسانوں کا معاشی قتل کیا جا رہا ہے، پنجاب حکومت کی جانب سے گندم نہ خریدنے کے فیصلے سے گندم کی اوپن مارکیٹ کریش کر جائے گی، جس کی وجہ سے حکومت کی مقرر کردہ امدادی قیمت 3 ہزار9 سو روپے ملنا بھی ممکن نہیں اور اس وقت گندم اوپن مارکیٹ میں تین ہزار روپے فی من تک گر چکی ہے مافیا کی ملی بھگت سے ایک نیا بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے نتیجے میں پنجاب میں گندم کی قیمتیں ریکارڈ کم ترین سطح پر آ چکی ہیں اور کسان اس وقت بے چارگی کے عالم میں ہے۔ کاشتکار تنظیموں نے احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے طاقت کا استعمال کیا تو حالات کی خرابی کی ذمہ دار وہ خود ہو گی۔ اب حکومت نے 3900 روپے فی من گندم کی امدادی قیمت مقرر تو کر دی ہے لیکن وہ بھی نہیں مل رہی۔ دوسری جانب کھاد کی قیمت ایک سال کے دوران سرکاری نرخوں سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہے اور کسان بلیک میں کھاد خرید کر گندم اگا رہا ہے، ڈیزل اور بجلی کے چارجز بھی بڑھ چکے ہیں۔ تمام اخراجات کو شامل کرنے کے بعد، گندم کی فی ایکڑ قیمت کم از کم امدادی قیمت سے کہیں زیادہ ہے جس سے کسانوں کو بہت زیادہ نقصان ہورہا ہے۔ اس صورتحال میں خدشہ ہے کہ گندم کی کمی کے باعث کسان دیوالیہ ہو جائیں گے۔ گندم بحران ملک کو ایک نئے بحران میں دھکیل سکتا ہے جس پرغورکی ضرورت ہے۔
کیوں کہ ہمارے ہمسائے میں کسانوں کو تین سو یونٹ بجلی فری دی جا رہی ہے جبکہ ہمارے ہاں ایک یونٹ سو روپے سے زائد کا ہو چکا ہے، اسی طرح کسان سرکاری ریٹ سے زائد پر یوریا کھاد کی بوری لائنوں میں لگ کر بلیک میں حاصل کر رہا ہے، ڈیزل کا ریٹ ایک سال میں کہاں پہنچ چکا ہے۔اس گندم بحران میں یقینا گندم خریدنے کیلئے حکومت ہدف مقرر نہیں کرے گی، کسان کو اس کی پیداواری لاگت نہیں دے گی تو لازم مافیا اس صورتحال سے فائدہ اٹھائے گا کیوں کہ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ پاکستان کو ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم باہر سے منگوانا پڑتی ہے اور اپنے کسان کو اس کی پیداواری لاگت نہیں دی جاتی اس پر حکومت کو ایکشن لینا ہو گا ماضی قریب میں پاک فوج اور حکومت نے مل کر ایک گرین انیشیٹو پروگرام بھی شروع کیا تھا اور اس طرح کےگندم بحران گرین انیشیٹو کو ناکام بنانے کی سازش ہو سکتے ہیں۔
گندم فصل کے اچھا ہونے پر کسان اور حکومت دونوں خوش ہوتے ہیں کیونکہ ایک تو کسان کو اچھی آمدن ہوتی ہے تو دوسری جانب ملک میں سال بھر اس چیز کی قلت نہیں ہوتی۔صوبہ پنجاب میں گندم کی بمپر کراپ یعنی زیادہ پیداوار کے بعد بھی کسان سراپا احتجاج ہیں اور اس کی وجہ صوبائی حکومت کی جانب سے ان سے گندم نہ خریدنا ہےپاکستان کی سابق نگراں حکومت کی جانب سے 30 لاکھ ٹن سے زائد گندم کی درآمد کے بعد اس وقت حکومتی گوداموں میں گندم کا بڑا ذخیرہ موجود ہے جب کہ دوسری جانب صوبے میں گندم کی اچھی فصل ہونے کی وجہ سے کسانوں کے پاس بھی اس کی وافر مقدار موجود ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے 3900 روپے فی من کے حساب سے گندم کی خریداری کا اعلان کیا گیا تھا تاہم ابھی تک پنجاب حکومت کی جانب سے اس کی خریداری نہیں کی گئی۔ حکومت کے اس رویّے پر کسان تنظیموں کی جانب سے صوبے بھر میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔صوبہ پنجاب میں حکومت کی جانب سے گندم کی خریداری نہ ہونے کی بڑی وجہ نگران حکومت کے دور میں درآمد کی جانے والی اور گذشتہ سیزن کی گندم بتائی جا رہی ہے۔ چونکہ حکومتی گوداموں میں اس کا سٹاک موجود ہے اس لیے صوبائی حکومت اب تک مزید گندم نہیں خرید سکی۔
پنجاب کے وزیر خوراک بلال یاسین کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق پنجاب کے پاس 23 لاکھ میٹرک گندم کا سٹاک موجود ہے جو اگلے پورے سال کے لیے کافی ہے۔ پنجاب حکومت کاشتکاروں کے تحفظ کے لیے گندم کی طلب اور رسد پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ پنجاب حکومت ہر سال تقریباً 40 لاکھ ٹن گندم کے حصول کو ممکن بناتی ہے۔
مگر اس سال ابھی تک گندم حصولی کا ٹارگٹ صرف 20 لاکھ ٹن ہے۔اس کی وجہ نگران حکومت کے دور میں گندم درآمد کرنا تھا جو اب حکومتی سٹاک میں موجود ہے۔چیئرمین کسان اتحاد کا کہنا ہے کہ اس وقت پنجاب حکومت کے گوداموں میں 22 لاکھ ٹن گندم موجود ہے جب کہ اس سیزن میں پنجاب میں ایک کروڑ 20 لاکھ ٹن گندم کی پیداوار ہوئی ہے۔ ہر سیزن میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یہی پیداوار ہوتی ہے جس میں سے پچیس سے تیس لاکھ ٹن گندم کسان اپنی ضرورت کے لیے رکھ لیتا ہے جب کہ بیس سے پچیس لاکھ مارکیٹ میں فروخت کر دی جاتی ہے جب کہ پینتیس سے چالیس لاکھ ٹن گندم پنجاب حکومت خرید لیتی ہے۔ گذشتہ برسوں میں تو ایسا ہوتا تھا کہ اگر 40-50 من گندم بھی گھروں میں مل جاتی تھی تو ضلعی انتظامیہ چھاپے مارتی تھی کہ کہیں ذخیرہ اندوزی تو نہیں ہورہی لیکن اس سیزن میں کسان سے ابھی تک کوئی گندم نہیں خریدی گئی۔ پنجاب حکومت کی جانب سے موجودہ سیزن میں اب تک گندم نہ خریدنے کی جو سب سے بڑی وجہ بتائی گئی ہے وہ گذشتہ سیزن میں درآمد کردہ گندم ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اس وقت جو گندم موجود ہے اس سے کہیں زیادہ حکومتی گوداموں میں ذخیرہ کی جا سکتی ہے۔ گندم کا سٹاک کھلے میدانوں میں ترپال ڈال کر کیا جاتا ہے اور ماضی میں پنجاب میں ساٹھ لاکھ ٹن سے زائد گندم بھی ذخیرہ ہوتی رہی ہے پنجاب کے علاوہ بلوچستان میں پانچ لاکھ ٹن گندم کی پیداوار ہوتی ہے جس میں ساڑھے تین لاکھ بلوچستان حکومت خرید لیتی ہے۔ سندھ میں 40 سے 50 لاکھ ٹن تک گندم کی پیداوار ہے اسی طرح کے پی میں بھی چار پانچ لاکھ ٹن ہوتی ہے۔ پاسکو اٹھارہ لاکھ ٹن تک گندم خرید رہا ہے۔ تاہم اصل مسئلہ پنجاب میں ہے جہاں گندم کی سب سے زیادہ پیدوار ہوتی ہے اور صوبائی حکومت کی جانب سے خریداری کے بغیر کسان کو اس کی قیمت نہیں مل سکتی۔ پنجاب سے دوسرے صوبوں میں گندم بھیجنی چاہیے تاہم یہ بھیجی نہیں جا رہی کیونکہ اس وقت دوسرے صوبوں میں گندم بھیجنے پر پابندی ہے۔ گندم ہو یا کوئی اور شہ اس کی قیمت کا تعین معاشی اصول کے مطابق رسد اور طلب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، اگر رسد زیادہ ہو اور طلب کم ہو تو قیمت کم ہوجاتی ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو دام مہنگے ہوجاتے ہیں۔ ہوا یوں کہ حکومت نے گندم کی فصل آنے سے قبل بیرونی ذرایع سے ضرورت سے زیادہ گندم درآمد کر لی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں گندم کی رسد طلب کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوگئی۔ گندم کی فصل پورے سال کے لیے ہوتی ہے یعنی اب اگلے سال نئی فصل مارکیٹ میں آئے گی جس کا مطلب ہے کہ ڈیمانڈ تو ہو گی لیکن سٹاک استعمال ہوتا رہے گا جس سے امکان کم ہے کہ قیمت میں کوئی کمی آئے۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے لے کر اب تک گندم کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر 1960 میں گندم کی کل پیداوار 3,909 ہزار میٹرک ٹنز تھی جو کہ 1980 میں بڑھ کر 10,857 ہزار میٹرک ٹنز اور سال 2000 میں 21,079 ہزار میٹرک ٹنز تک جا پہنچی۔ یہ اضافہ کا رجحان جاری رہا جو بڑھتے بڑھتے 2020 میں 25,247 ہزار میٹرک ٹنز اور سال 2023 میں 26,801 ہزار میٹرک ٹنز تک جا پہنچا تاہم 2024 کی متوقع پیداوار تقریباً 32,100 ہزار میٹرک ٹنز ہے۔ 1960 میں گندم کی کل کھپت 5,454 ہزار میٹرک ٹنز جوکہ 1980 میں بڑھ کر 11,200 ہزار میٹرک ٹنز اور 2000 میں 22,500 ہزار میٹرک ٹنز تک پہنچ گئی۔ یہ اضافہ جاری رہا جس کے نتیجے میں 2020 میں گندم کی کل کھپت 26,300 ہزار میٹرک ٹنز اور 2023 میں 29,600 ہزار میٹرک ٹنز تک پہنچ گئی۔ منصفانہ تخمینہ کے مطابق سال 2024 کی متوقع پیداوار 32,000 ہزار میٹرک ٹنز کے قریب ہے جوکہ پورے سال کی گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے، اس کے علاوہ اگر ہم غورکریں تو افغانستان کو برآمد ہونے والی 2 ملین میٹرک ٹنز گندم کے نتیجے میں پیداوار کھپت کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔
2024 میں آٹے کی قیمت میں اضافہ اور قلت کے پیش نظر گندم کو بونا کسانوں کا من پسند انتخاب تھا جس کے نتیجہ میں کاشت کیے گئے علاقہ کا 40 فیصد (9.12 ملین ہیکٹر) گزشتہ سال کے اکتوبر، نومبر اور دسمبر میں 2024 کی گندم کی فصل کے لیے وقف کردیا گیا تھا۔ اس سے 2022 میں لگائی گئی 2023 کی گندم کی فصل میں 8.86 ملین ہیکٹر سے لے کر گزشتہ سال کی 9 ملین ہیکٹر سے زیادہ اضافہ ہوا۔