پی ٹی آئی کی قیادت اور انکے باشعور لوگ اگر اپنی پارٹی کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں تو انکی آنکھوں پر پڑے ہوئے پردے ہٹ جائینگے اور ذہنوں کے چودہ طبق روشن ہو جائینگے لیکن اسکی امید ایسے لوگوں سے ہو سکتی ہے۔ جنکے دماغ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔
ان لوگوں کو جن افراد نے لاڈ پیار سے لا کر اسلام آباد کے پر امن خوشگوار ماحول کو پراگندہ کرنے کیلئے کھلا چھوڑا تھا۔ وہ تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ لیکن جب ہم اس پارٹی کے قائدین سے لیکر پیرو کاروں تک پہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں افراد کا ایک ایسا اجتماع نظر آتا ہے جن میں سوجھ بوجھ رکھنے والوں کو دوربین لیکر ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ان کو صرف اقتدار کے حصول سے سروکار ہے۔ چاہے وہ اخلاقیات اور کردار کی پامالی ہو یا گفتار کی تنزلی ۔ حالانکہ انسان کے پہچان کیلئے کردار و گفتار ہی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ انھی دو خاصیتوں کی وجہ سے گرفت بھی ہے اور کامیابی بھی۔
پی ٹی آئ کی بنیاد جب رکھی گئ۔ تو سب سے پہلے انتشار اور اخلاقی پامالی ہی کو بنیاد بناکر سیاسی میدان میں اتارا گیا۔ ایک آزاد خیال مدر پدر آزاد معاشرے کی بنیاد رکھنے کیلئے مخلوط اجتماعات کو کامیابی سمجھا۔ مردو زن کے تصور سے لاپرواہ دن رات ایسے ماحول کو رواج دیا۔ جس کے سبب نوجوانوں کے ساتھ ساتھ آزاد خیال لوگوں نے بھی بھرپور حصہ لینا فرض سمجھ لیا۔ انکو اسلامی اور معاشرتی اقدار کا کوئی احساس نھیں تھا۔ ایک سو چھبیس دن اودھم مچایا ۔
جب پی ٹی آئ کو صوبہ کے پی کے میں منظم دھاندلی سے حکومت دلائ گئی جھاں سے انکو پلیٹ فارم مہیا کیا گیا۔ جنھوں نے صوبے کے فنڈز کو اپنی سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے بیدریغ استعمال کیا۔
2018 کے الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی نے اسلام آباد کے سرکاری ٹیلیوژن سنٹر پارلیمنٹ ہاؤس اور دوسرے سرکاری دفاتر پر ایسا حملہ کیا جیسے نیٹو فوج نے کابل فتح کیا تھا۔ اعلانات کیے گئے۔ یھاں تک کہ سپریم کورٹ کے دیواروں پر گندی گندی شلواریں تک لٹکا دیں۔ اور چیف جسٹس جناب ثاقب نثار المشہور بابائے ڈیم روزانہ افس جانے سے پہلے ان گھیلی شلواروں کی خوشبو سونگھتے ہوئے معائنہ کیا کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ ذہنی طور پر اتنا سٹھیا گیا تھا کہ پانامہ کیس کا فیصلہ کرتے کرتے اقامہ پر فیصلہ دیدیا۔
پی ٹی آئ کو سیاسی گرو بنا نے میں اسٹبلشمنٹ کے کرتا دھرتا کا ذکر نہ کرنا بھی نا انصافی ہوگی۔ اس کار خیر میں سائیں جی کو ایمپائر کی انگلی کا نام دیا گیا۔ جسکے لئے ایمپائر نے باقاعدہ تجسس پیدا کرکے پوری قوم کو تین دن تک ہیجان میں مبتلا کئے رکھا۔ نہ ایمپائر کی انگلی اٹھی اور نہ کھیل کا خاتمہ ہو سکا۔
پی ٹی آئ کو جس لاڈ پیار سے انکے بھی خواہوں نے اقتدار تک پہنچایا تھا۔ وہ اپنی جگہ لیکن وہ اس کھیل میں یہ بھول گئے تھے ۔ کہ جس غیر قانونی اور غیر پارلیمانی طریقے اقتدار کی منتقلی کر رہے ہیں۔ مستقبل قریب میں وہی انکے لئے سر دردی کے ساتھ بدنامی اور ملکی تباھی کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ جب انکو یہ احساس ہوا تو حفظ ما تقدم کے مصداق راستہ بدلنے کی کوشش کی۔خود کو نیوٹرل کہکر جان چھڑانے کی کوشش کی۔ پھر کمبل کو تو میں چھوڑتا ہوں لیکن کمبل مجھے نھیں چھوڑتا کے مصداق پی ٹی آئ انکے گلے پڑگئی۔
اس کے بعد شاعر کے بقول
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی۔
وہ دن اور آج کا دن اٹھتے بیٹھتے جاگتے سوتے ملکی اور غیر ملکی سطح پر اب اسٹبلشمنٹ کے چند بڑوں کی انفرادی جان بوجھ کر سیاسی جماعتوں کو بیوقعت کرنے کا منصوبہ انکی نیکنامی کیلئے سیاہ دبہ ثابت ہوا۔ انھوں نے سابقہ ادوار کی طرح مارشل لاء میں کی جانے والی ایکسرسائز ز کو دہرانے کی کوشش کی۔ جو یہ بھول گئے تھے کہ ان مازشل لاء ادوار کو کسی نہ کسی بیرونی پراکسی وار میں تبدیل کیا جاتا تھا۔ جسکو ہم coverage of circumstances بھی کہ سکتے ہیں۔ لوگوں کے رجحانات کو دوسری طرف متوجہ کرنا آسان تھا۔ جس سے کسی بھی سیاسی پارٹی کے کردار کے خاتمے کا راستہ ہموار ہو جاتا تھا۔لیکن اب کی بار کوئ ایسا دوسرا آپشن نوجوان طبقہ کے سامنے موجود نھیں تھا۔ اسلام سے جوان طبقہ کو پہلے سے بدظن کیا جا چکا تھا۔ اس کے لئے نیا راستہ ازاد منش زندگی گذارنے کی صورت میں بن چکا تھا۔
پی ٹی آئ کو اقتدار کا نشہ ایسا چڑھا۔ کہ صرف عدالتی اور اشٹبلشمنٹ کے اشتراک سے وہ زبانی کلامی بھت کچھ کرتے دکھائی دیتےرہے۔ دونوں نے کسی ایسے فرد یا جماعت کو نھیں چھوڑا تھا جس
کو پی ٹی آئ کی حکمرانی سے اختلاف ہو سکتا تھا۔ اب انکو ازاد حکمرانی کی عادت پڑی ہے۔ کچھ عرصہ تک وہ ان دونوں قومی اداروں کی طرف دیکھا بھی کرینگے اور ان کو خاموش رہنے پر لتھاڑا بھی کرینگے ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس نے جلتی پر کر تیل کا کام کرلیا یا آسان لفظوں میں کھا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئ کے زخموں کو کرید نے کے بعد نمک پاشی کے ساتھ سرخ مرچوں کا چھڑکاؤ بھی کیا گیا۔ اسی وجہ سے انکی چیخیں پھر سے بلند ہو رہی ہیں ۔
قانون اور آئین کی پاسداری کرنا ملک و قوم کے بھترین مفادمیں ہوتا ہے ۔ اگرچہ سابقہ ادوار میں پاسداری کی بجائے پامالی ہوتی رہی ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ہم ملک و قوم کی سلامتی پر سمجھوتا کریں۔ جس کا مستقبل میں بھاری قیمت چکانا ہمارےبس میں نھیں ہے۔
دس سالہ دور حکومت میں پی ٹی آئ اپنا کارنامہ صوبہ سرحد میں قوم کو بتادے۔ اور تین چار سالہ دور حکومت وفاق اور پنجاب میں وہ کام بتادے جس پر ملک و قوم فخر کر سکے۔سوائے گوگیوں اور پینکیوں سے پینگیں بڑھانے کے۔
پی ٹی آئی نے پاکستان کو تنھا کرکے دوست ممالک سے الگ کیا تھا۔معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار کیا۔ قومی مفاد کے منصوبوں کو بند کردیا تھا۔ اخلاقی اقدار کی پامالی اور ملکی اداروں سے نفرت کرنے کی بنیاد رکھی گئی ۔جس کا پاکستان کا دشمن ایک عرصہ سے منتظر تھا ۔
کچھ لوگ شہداء کے ماڈل کے توڑ پھوڑ کو عام سی بات کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کل کلاں قائداعظم اور علامہ اقبال کی تصاویر جلانے کو بھی عام سی بات کہا کرینگے۔ ان سے سوال یہ کہ اگر یہ روایت بر قرار رکھنے کا رواج پڑا تو قوم و ملک کی سلامتی بھی ان کیلئے کوئی معنی نھیں رکھتی۔ پھر مستقبل میں قادیانیت کے پرچار کو بھی وہ عام سی بات کہا کرینگے۔ ایسا رویہ بد کردار و بد اخلاق ذہنیت کی اختراع ہے۔ کچھ لوگ اسلامی فاتحین کو قابض اور لوٹ مار کرنے والے کہتے ہیں۔ وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں۔ کہ انھی لوگوں نے اسلامی تعلیمات اور اقدار سے ہمیں روشناس کرایا۔ ورنہ اس خطے کی تقدیر میں بت پرستی کے سوا کچھ نھیں تھا۔ ہمیں ان اسلامی فاتحین کا شکر گزار ھونا چاہئے جنہوں نے ہمیں کفر کے اندھیروں سے نکال کر اسلام کی روشنی سے روشناس کرایا۔