ریگستان میں رہنے والے لوگ نہایت ہی کسمپرسی کی زندگی بسر کرتے کہاں جہاں علاقوں میں اب تک بجلی کی جدید سہولت موجود نہیں لوگ یہاں فطری ماحول میں رہتے ہیں اور سادہ زندگی گزارتے ہیں
بستی مکھنی بھی ایک ایسی ہی بستی ہے جہاں اب تک بجلی کی جدید سہولت موجود نہیں لوگ یہاں فطری ماحول میں رہتے ہیں اور سادہ زندگی گزارتے ہیں، ان کی زندگی بہت محنت طلب اور مشکلات میں گزرتی ہے اور کیونکہ بارانی علاقہ ہے اور وہاں سال میں بمشکل ایک ہی فصل ہوپاتی ہے اور وہ بھی صرف بارش کےمرہون منت ہوتی ہے بارش آئےگی تو فصل ہو گئی بارش نہ آئی تو فصل بھی نہیں ہوتی ۔
ریگستانی علاقوں میں رہنے والے باشندوں کا کہنا ہے کہ کیونکہ یہاں وسائل روزگار کے نہیں ہیں اس لیے ان کی زندگی مشکل سےگزر رہی ہے یہاں زندگی بسر کرنے کے کیا کیا طریقے ہوتے ہیں جانیں۔
تھرپارکر کے گاؤں بپو ہار میں تھرکے باشندے کچے آشیانوں میں رہتے ہیں اور ان کو مقامی زبان میں چورے کہا جاتا ہے ان کی ساخت اور ان کا ڈھانچہ لکڑی اور گھاسوں سے تیار کیے جاتے ہیں اور یہ ایک کمرے پر مشتمل جو ان کا جو مکان ہے یہی ان کی کل دنیاہوتا ہے۔وہ اسی میںفیملیز کے ساتھ رہتے ہیں۔ان گھروں میں اندر داخل ہوتے ہی آپ کو ایک ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے باہرشدید رتیلی زمین کی وجہ سے شدید گرمی ہوتی ہے مگر اندر داخل ہوتے ہی اس کی حدت میں کمی آ جاتی ہے۔
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ یہ چورے ٹھنڈے بنائے جاتے ہیں جو باہر کی شدید گرمی سے انہیں محفوظ رکھتے ہیں۔یہاں پہ یہ پوری فیملی کے ساتھ رہتے ہیں یہیں پر جو کھانا پکانا بھی کرتے ہیں تمام گھر کے افراد کا یہی مسکن ہےچورے کی تیاری میں ایک ماہ کا وقت لگتا ہے ایک ماہ میں جا کر یہ جو جگہ تیار ہوتی ہے۔ اور یہ چور ہےآپکو تھر میں جا بجا نظر آئیں گے۔
صحرائے چولستان یعنی روہی میںبہت سے لوگ ہجرت کر کے چلے گئے ہیں ۔اور اپنے مال مویشی کو لے کر وہ ایسی جگہوں پہ گئے ہیں کہ جہاں ان کو پانی میسر آسکے، پورا علاقہ ہی تقریبا ویران پڑا ہے سارےگھرخالی پڑے ہیںپانی کا چھوٹا ریزرو وائر بھی خشک ہو چکاہے. لوگ یہاں سے بھی نقل مکانی کرکے ایسی جگہوں پر چلےگئے ہیں کہ جہاں کے اور ان کے مال مویشیوں کے لیے پانی میسر ہو۔
غرض یہ کہ ریگستانی علاقوں میں رہنے والے لوگ اپنی مشکلات بھری زندگی نہایت سادگی اور محنت کرتے ہوئے گزار رہے ہیں۔