تحریر :اصغرعلی مبارک
سعودی فرمانروا اور وزیر اعظم محمد بن سلمان کی خصوصی ہدایات پرسعودی نائب وزیر سرمایہ کاری کی قیادت میں سرمایہ کاروں کا وفد پاکستان کا دورہ کر رہا ہے،۔سعودی عرب کے نائب وزیر سرمایہ کاری کی زیر قیادت سرمایہ کاروں کا اعلیٰ سطح وفد پاکستان پہنچا تو وفاقی وزرا مصدق ملک اور جام کمال نے اسلام آباد ایئرپورٹ پر ان کا پرتپاک استقبال کیا۔
سعودی وفد میں سعودیہ کی آئی ٹی، میرین، مائننگ، تیل و گیس کی تلاش، ادویات سازی، فنانس، زراعت، ٹیلی کمیونیکیشن، تعمیرات، لاجسٹک سروسز، پراپرٹی ڈویلپرز، ریٹیلرز،کمپنیوں کے سربراہان،ایوی ایشن کمپنیوں کے 30 سے زائد سی ای اوز، تجارتی اور سرمایہ کار شخصیات شامل ہیں۔ سعودی وفد کی پاکستان میں موجودگی کےدوران 10 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کے معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پردستخط ہونے کاامکان ہے۔ حکومت سعودی کمپنیوں کی ملکی کمپنیوں کے ساتھ مل کر نوجوانوں کے لیے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش رکھتی ہے۔ دوسری جانب سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے پاکستان میں اقتصادی تعاون اور سعودی سرمایہ کاری کو مزید بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ شہزادہ فیصل نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دیرینہ تزویراتی اور اقتصادی تعلقات کو اہم قراردیا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ نے نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار سے گیمبیا کے شہر بنجول میں پندرہویں او آئی سی اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پرسے ملاقات کی ہے ۔ سعودی وزیر خارجہ سے ملاقات کے دوران اسحٰق ڈار نے کہا کہ شہزادہ فیصل کا حالیہ دورہ پاکستان اقتصادی تعاون میں ایک نئی رفتار کی نمائندگی کرتا ہے۔ بات چیت کے دوران نائب وزیراعظم نے مشرق وسطیٰ کی حالیہ پیش رفت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیایاد رہے کہ حالیہ عرصے میں دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت نے ایک دوسرے کے ملکوں کے کئی دورے کیے ہیں جس میں تجارت اور سرمایہ کاری پر خصوصی گفتگو کی گئی۔
دورے کے دوران ہونے والی بزنس ٹو بزنس میٹنگز میں زراعت، کان کنی، انسانی وسائل، توانائی، کیمیکلز اور میری ٹائم کے کے شعبوں پر توجہ دی جائے گی۔وفد میں شامل تمام لوگ سرمایہ کاری کے ٹیکنیکل ایکسپرٹ تھے۔ اس دورے کی کامیابی پاک سعودی تعلقات میں نئے اور خوش آئند باب کی آمد کی دلیل ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ان منصوبوں کو مکمل شفافیت سے چلائیں اور ان کے لیے میرٹ پر سلیکٹ کر کے باصلاحیت ہنرمنر اور اہلکار لگائیں۔ ان منصوبوں سے ہٹ کر سعودی عرب کو قومی ایئرلائن، ایئر پورٹس اور ہوٹل انڈسٹری میں بھی سرمایہ کاری کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ آئل ریفائنری کے علاوہ ہمیں شمسی اور ونڈ ملز کے ذریعے تونائی حاصل کرنے کے منصوبے بھی حتمی شکل میں بیرونی سرمایہ کاروں کے سامنے رکھنا چاہییں کیونکہ پوری دنیا کلین انرجی کی جانب رواں دواں ہے۔ سعودی عرب کی پاکستان میں کامیاب سرمایہ کاری سے خلیج اور اس سے باہر دوسرے ممالک کو بھی وطن عزیز میں سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی۔ سعودی عرب کی کامیاب سرمایہ کاری سے خلیج اور اس سے باہر دوسرے ممالک کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی۔ پاک سعودی تعلقات روایتی طور پر دوستانہ رہے ہیں۔ دنیا کے بیشتر مسائل پر دونوں برادر ملکوں کا نقطہ نظر تقریباً یکساں رہا ہے۔ یہ تعلقات اس لحاظ سے بھی ممتاز ہیں کہ یہاں مادی اور روحانی زاویے دونوں اہم ہیں۔ سعودی عرب میں کعبہ شریف ہمارا قبلہ ہے اور اس وسیع و عریض ملک میں 20 لاکھ پاکستانی بھی کام کرتے ہیں جو قیمتی زرمبادلہ اپنے ملک بھیجتے ہیں۔
بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر کے اعتبار سے سعودی عرب دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں دفاعی تعاون ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ فوجی تربیت سے لے کر مشترکہ مشقوں تک دونوں ممالک نے عسکری استعداد کا طویل سفر طے کیا ہے اور یہ تعاون ہنوز جاری ہے۔ پاکستانی سپاہی اور افسر متعدد بار برادر ملک میں فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کے عسکری دستوں کو تب ہی بلایا جاتا ہے جب اس ملک پر سو فیصد اعتبار ہو سعودی عرب کے پاس وافر فنڈز ہیں جبکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے روشن مواقع موجود ہیں۔ سرمایہ کاری کی بات کئی سالوں سے چل رہی ہے سرمایہ کار عام طور پر اس ملک کا رخ کرتے ہیں جہاں سیاسی استحکام ہو اور پالیسیوں میں تسلسل پایا جاتا ہو۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے ایک اعلیٰ سطح کے سرمایہ کاری وفد کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ وفد کو مفصل بریفنگ کے علاوہ پروفیشنل سٹینڈرڈ کی فیزیبیلیٹی رپورٹس بھی دی گئیں۔ اس دوران وفد صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی ملا۔ وزیر اعظم نے وفد کو بتایا کہ اس مرتبہ ہم نے عالمی ماہرین کے مشورے سے فیزیبیلیٹی رپورٹس تیار کی ہیں۔ وزیراعظم کی یہ بات غمازی کرتی ہے کہ شاید اس سے پہلے والی فیزیبیلیٹی رپورٹس میں کوئی سقم رہ گیا تھا اور اس سے زیادہ جس بات پر ماتھا ٹھنکا وہ یہ کہ 77 سال گزرنے کے بعد بھی ہمیں سرمایہ کاری کے لیے منصوبے کی فیزیبیلیٹی بنانے کے لیے غیر ملکی ماہرین کا مشورہ درکار ہے۔
سعودی وفد کا یہ دورہ وزیراعظم اور ولی عہد کے درمیان مکہ مکرمہ میں ہونے والی ملاقات کا تسلسل ہے، جہاں سعودی عرب کے ولی عہد نے پاکستان میں جلد سرمایہ کاری کا عندیہ دیا تھا۔ وفد کے دورے میں سرمایہ کاری کے لیے تین شعبے بطور خاص چنے گئے اور وہ ہیں زراعت، توانائی اور معدنیات۔ یہ تینوں شعبے غیر ملکی سرمایہ جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سعودی وفد نے سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (سی آئی ایف سی) کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔ سی آئی ایف سی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے اعلیٰ ترین فورم ہے جس کی صدارت وزیراعظم کرتے ہیں اور آرمی چیف اس فورم کے رکن ہیں۔ یہ ایک ون ونڈو آپریشن ہے تاکہ غیرملکی سرمایہ کاروں کو کئی دفتروں کے چکر نہ کاٹنا پڑیں۔ خارجہ تعلقات کی متعدد جہیتیں ہوتی ہیں مثلاً سیاسی تعاون جہاں دونوں ممالک اقوام متحدہ اور او آئی سی وغیرہ میں ایک یا ملتا جلتا موقف اختیار کرتے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب مسئلہ کشمیر اور فلسطین پر یکساں پوزیشن رکھتے ہیں اور اب اسلاموفوبیا کے خلاف مل کر جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہمارے تعلقات کی دوسری اور بے حد اہم جہت عسکری تعاون ہے۔
تیسری جہت دوطرفہ تجارت ہے جس کو بڑھانے کے لیے زیربحث دوسرے میں بات چیت ہوئی ہے اور اب سرمایہ کاری کا اضافہ ہونے کو ہے، جس سے پاکستان کا گروتھ ریٹ بہتر ہو گا، روزگار کے نئے مواقع کھلیں گے اور برآمدات می اضافہ ہوگا اور دونوں برادر ممالک کے تعلقات میں ایک نئے ایندھن کا اضافہ ہوگا۔ ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ان منصوبوں کے لیے فل پروف سکیورٹی مہیا کریں۔ سرمایہ کار ان پرندوں کی مانند ہوتے ہیں جو فضا سے آہستہ آہستہ زمین پر اترتے ہیں لیکن بندوق کا ایک فائر ہو جائے تو اس کی آواز سن کر سہم جاتے ہیں اور آناً فاناً اڑ جاتے ہیں۔ پانچ ارب ڈالر کی متوقع سعودی سرمایہ کاری دراصل ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اگر یہ منصوبے کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستان میں مزید سرمایہ کاری ہوگی جو 25 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ اس بار تجویز کردہ منصوبوں کی حمتی منظوری سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے میں دی جائے گی جو جلد متوقع ہے۔یہ یاد رکھنا ضروری ہےکہ وزیراعظم شہباز شریف سے عالمی اقتصادی فورم کے خصوصی اجلاس کے موقع پر سعودی عرب کے وزیر تجارت ماجد القصبی نے ملاقات کی تھی ۔ ملاقات میں وفاقی وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب، وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ، وفاقی وزیر پیٹرولیم مصدق ملک اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی بھی موجود تھے۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے معاشی تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں، آئندہ دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم بڑھانے کے حوالے سے بھر پور اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے معاشی تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں، آئندہ دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم بڑھانے کے حوالے سے بھر پور اقدامات اٹھائے جائیں گے، پاکستان میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ اور سرمایہ کاروں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے پوری طرح فعال ہے۔
سعودی عرب کی ترقی و خوشحالی میں پاکستانیوں کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔ سعودی وزیر تجارت نے کہا تھا کہ ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان کی واضح ہدایات کے مطابق ہم پاکستان کو سرمایہ کاری اور تجارت کے حوالے سے ترجیح دے رہے ہیں، سعودی کاروباری و تاجر برادری اور سرمایہ کاروں کا وفد جلد پاکستان کا دورہ کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئندہ ایک سے ڈیڑھ سال کے دوران دونوں ممالک کے معاشی اور تجارتی تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے لیے اہداف کا تعین کیا جا رہا ہے۔ دونوں ممالک کے نوجوانوں اور نئی نسل میں سعودیہ ۔ پاکستان دوستی کے حوالے سے جذبات مزید اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔وزیر برائے پیٹرولیم مصدق ملک کا کہنا ہے کہ ہمارا اصل مقصد ہے کہ پاکستان کے سرمایہ کار نا صرف پاکستان کی ترقی میں حصہ ڈالیں بلکہ سعودی عرب میں بھی کام کریں، اس طرح دو راستوں کا تعین کیا گیا ہے۔ ہمیں ملک سے مایوسی ختم کر کے ایسا معاشرہ بنانا ہے جہاں ترقی کی امید ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے کہا کہ نا صرف ہم حکومت کے معاملات حکومت ساتھ طے کر کے سرمایہ کاری کروائیں گے
سعودی کاروباری لوگ پاکستانی سرمایہ کاروں سے بات کر رہے ہیں، پاکستانی سرکار نے عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ہم پاکستان سے ریڈ ٹیپ کو ختم کر دیں گے، ہمارے پاس ایلیٹ کیپچر ہے، جب لیول پلئینگ فیلڈ ہوگا سب کے پاس تو ہنر مند بھی اسی رفتار سے چلیں گے جس رفتار سے سیٹھ چلتا ہے، ہم انہی کے لیے ریگولیشن کم کرنا چاہتے ہیں، اجارہ داری اب نہیں رہے گی، ہم پاکستان سے ریڈ ٹیپ کو ختم کر دیں گے۔ مصدق ملک نے کہا کہ پہلا راستہ ہے کہ اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ایک سرکار کا دوسری سرکار سے کیا ناطا ہونا چاہیے، ہمارا سعودی عرب سے قومی سطح پر 70 سالہ پرانا رشتہ ہے مگر تاریخی طور پر 1400 سال پرانا ہے، ہمارے کاروبار کو آگے بڑھانے کے لیے سعودی کمپنیوں کا پاکستانی کمپنیوں سے میل کیا جانا چاہیے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہمارا یہ سب کرنے کا مقصد نیا خاکہ تشکیل دینا ہے، ایک مایوسی جو ہے کہ ملک میں کچھ نہیں ہوسکتا تو ایسا نہیں ہے، ہمیں یہ نا امیدی ختم کرنی ہے، ہمیں ایک نئی منزل کی طرف دیکھنا ہے، ہمیں ایک ایسا معاشرہ بنانا ہے جہاں ہمارے بچے بچیوں کے آنکھوں میں ترقی کی امید ہوگی، اس حوالے سے ہم مدد نہیں بھائی چارہ چاہتے ہیں، ترقی ، کاروباز، روزگار سب چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ملک ایک عظیم ملک ہے، یہاں گالی گلوچ کا کلچر نہیں چل سکتا، ہمیں کچھ رواداری سے کام کرنا ہے، ایک معتدل معاشرہ قائم کرنے کے لیے ہم کام کر رہے ہیں۔ بعد ازاں وفاقی وزیر جام کمال نے کہا کہ معیشت سب سے اہم چیز ہے۔
آج کے دور میں معیشت سے ہی خارجہ پالیسی بنتی ہے، اس دفاع ہم نے طے کیا کہ سرکار کی مووجدگی اس طرح ہوگی کہ ہم صرف سہولیات فراہم کریں گے اور کچھ نہیں، اس پروگرام کے لیے بہت سے لوگ آئیں ہیں، دو ہفتوں میں ہمارا وفد دو دفع سعودی عرب گیا اور ان کا وفد پاکستان آیا۔ جام کمال نے بتایا کہ آج یہاں تقریبا 100 پاکستانی کمپنیاں موجود ہیں، یہاں سب ایک دوسرے سے ملاقات کر رہے ہیں، پاکستان کی اقتصادی معاملات کو بہتر کرنے میں سب سے کلیدی کردار کاروباری لوگوں کا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دو سال پہلے پاکستان سے کمپنیاں واپس جارہی تھیں لیکن اب وہ واپس آرہے ہیں، ہمیں اپنے بزنس سیکٹر کو فروغ دینا ہے، ہم حکومتی عمل کو آسان کریں گے تاکہ معاملات آسان ہوں، یہ ہماری ذمہ داری ہے اور ہم اسے پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں