تحریر:اصغر علی مبارک
ملکی معیشت کو بہتر بنانا سول و عسکری قیادت کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ وزیراعظم پاکستان ملکی معیشت کی بحالی اور مضبوطی کے خواہاں ہیں تو چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیراقتصادی بحالی کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے حکومت کے ساتھ پاک فوج کے ہر ممکن تعاون کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں۔وزیر اعظم محمد شہباز شریف کا ویژن سعودی عرب کی سرمایہ کاری سے پاکستان کی معاشی ترقی ہے سعودی عرب نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے سعودی سرمایہ کاروں کا وفد آج پاکستان پہنچے گا ۔
خیال رہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی سعودی عرب کی دلچسپی ہمارے ملک کے معدنیاتی منظرنامے کو کافی تبدیل کرسکتی ہے۔ سعودی عرب اپنے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ جس کی مالیت ایک کھرب ڈالرز سے زائد ہے، اس کے ساتھ اب وہ پاکستان کی مائننگ انڈسٹری کی ترقی میں تعاون کے لیے سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہے۔وزیراعظم نے نئی حکومت کی تشکیل کے بعد سب سے پہلے سعودیہ کا دورہ کیا جس کے نتیجے میں سعودی عرب کے وزیر اعظم کی ہدایت پر یکے بعد دیگرے سعودی عرب کے وفود نے پاکستان کادورہ کیا اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبوں پر پیش رفت ہوئی جوپاکستان کی معاشی بحالی کیلئے اہم قدم ہے , پاکستان کا مقصد سعودی سرمایہ کاری سےاپنی معدنیات پر مبنی معیشت کو بہتر بنانا ہے۔پاکستان کے پاس معدنیاتی وسائل کے انبار ہیں جبکہ سعودی عرب کے پاس ان معدنیات کو زمین سے نکالنے میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے دولت اور تجربہ ہے۔
فوکل پرسن پاک سعودی شراکت داری اور وفاقی وزیر پٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا ہےکہ سعودی عرب سے ہمارا پرانا رشتہ ہے، اس رشتے کو ہم استحکام کے رشتے میں تبدیل نہیں کر سکے، کبھی اکٹھی ترقی کے حوالے سے ہم نے بات چیت نہیں کی، ہمیں سعودی عرب سے مدد نہیں بلکہ ترقی چاہیے، ہم خود دار قوموں کی طرح گفتگو کرنا چاہ رہے ہیں،ہم ترقی کے لیے گفتگو کر رہے ہیں، اس سلسلے میں سعودی عرب کے وزرا آئے، پھر ہمارا وفد بھی سعودی عرب گیا، ہمارے آنے کے بعد آ ج سعودی عرب کا وفد ارہا ہے اور تین دن بعد ہم پھر وہاں جائیں گے۔ ہماری در آمدات اور برآمدات میں عدم توازن ہے، ہم نے اپنے ایکسپورٹس پر توجہ دینی ہے، ہماری پیداواری قوت میں دیگر ممالک کے مقابلے فقدان ہے، ہمیں شرح ترقی بڑھانی ہے تاکہ لوگوں کو روزگار ملے۔حکومت کا سب سے بڑا صارف عوام ہے اور ان کے راستے میں ہم ریڈ ٹیپ کو ختم کر کے ریڈ کارپٹ کی طرف لے کر جائیں گے، یہ وزیر اعظم کا ویژن ہے، ان کا حکم ہے کہ ان چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ بیرونی سرمایہ کاری سے متعلق مجھے ذمہ داریاں دی گئی ہیں، ہمارے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ جب بچے بچیاں اسکول، کالجز سے نکلیں تو وہ نا امید نا ہوں، ان کو معلوم ہو کہ حکومت اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے، اور آنے والے وقت میں جب وہ باہر نکلیں گے تو نوکریاں بھی ہوں گی اور اگر اللہ نے موقع دیا تو وہ لوگوں کو نوکریاں بھی دے رہے ہوں گے، اس عمل کے لیے وزیر اعظم نے ایک خاکہ تیار کیا ہے۔
یاد رہے کہ معدنیات جیسے کاپر لیتھیم بیٹریز کے لیے ضروری ہیں اور توانائی کی منتقلی اور قابلِ تجدید معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مخصوص معدنیات بشمول تانبے کے حصول کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں کیونکہ انہیں قابلِ تجدید توانائی کے لیے اہم قرار دیا جارہا ہے۔ تاہم ان میں سے بہت سی معدنیات ایسی جگہوں پر پائی جاتی ہیں جو جغرافیائی سیاسی طور پر غیرمستحکم ہیں جس کی وجہ سے وہاں کان کنی میں دشواری ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے پاس بھی تانبے اور سونے کے ذخائر ہیں جس نے سعودی عرب کی توجہ حاصل کی۔ وہ پاکستان کے وسائل کو عالمی تناظر میں قابلِ تجدید توانائی کے حصول کے لیےایک اچھی سرمایہ کاری کے طور پر دیکھتا ہے۔سعودی عرب کا پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کان کنی کو اہم سمجھتا ہے اور ان کے نزدیک سرمایہ کاری کے 13 اہم شعبہ جات میں سے کان کنی میں سرمایہ کاری ایک کلیدی اقدام ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان دونوں کو مل کر کام کرنے سے مشترکہ فوائد حاصل ہوں گے جبکہ اس سے پاکستان کی کان کنی کی مہارت اور صلاحیتوں کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔ ریکو ڈک، تنابے اور سونے کی کان کنی کا پروجیکٹ بلوچستان کے معدنیات سے مالامال علاقے میں واقع ہے جوکہ ٹیتھیان میگمیٹک آرک کا حصہ ہے۔ سرمایہ کاری سے متعلق متعدد نشستوں کے بعد حتمی مرحلہ اب اس پر مرکوز ہے کہ اس منصوبے میں معاشی شراکت داری کے تناسب میں توازن کیسے رکھا جائے۔حکومت پاکستان سعودی عرب سے ایک ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے بدلے انہیں ریکو ڈک میں وفاق کے شیئرز کا ایک معقول حصہ دینے پر غور کررہی ہے۔ اگرچہ ان مذاکرات سے سامنے آنے والے باتیں ابھی قیاس آرائی پر مبنی ہیں بیرک گولڈ جس کی اس منصوبے میں 50 فیصد کی شراکت ہے، اپنے شیئرز کم کرنا نہیں چاہتی لیکن وہ اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اس منصوبے میں سعودی عرب کی شمولیت سے فوائد حاصل ہوں گے۔ بیرک کی جانب سے خیرمقدم کیے جانے کے پیچھے اہم وجہ وہ سیکورٹی اور استحکام ہے جو سعودی عرب جیسے بڑے سرمایہ کار کی شمولیت سے اس منصوبے میں شامل ہوگا۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت بھی اس تعاون کے حق میں ہے لیکن وہ اپنے شیئرز سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں۔ اگر سمجھوتہ ہوجاتا ہے تو سعودی عرب کو او جی ڈی سی ایل اور بی بی ایل کے تحت موجودہ وفاقی شیئرز مل جائیں گے جس سے اس منصوبے میں شراکت داروں کے شیئرز کا تناسب تبدیل ہوجائے گا۔ دوبارہ بتاتے چلیں کہ شیئرز کی تقسیم کے حوالے سے مذاکرات ابھی جاری ہیں جو ابھی حتمی شکل اختیار نہیں کرپائے ہیں۔سعودی سرمایہ کو پاکستان کے مائننگ سیکٹر میں متعارف کروائیں گے تو یہ متوقع طور پر پاکستان کو معدنیاتی وسائل پر مبنی معیشت کی اہمیت اجاگر کرنے میں اہم ثابت ہوگا۔ اس حوالے سے طویل مدتی فوائد اور کسی بھی طرح کے ممکنہ جغرافیائی سیاسی یا معاشی فیصلوں میں انتہائی محتاط ہونا ہوگا اور یہ صرف سرمایہ کاری اور شیئرز کی تقسیم کی بات نہیں ہے۔ تانبے کے وسائل کے نام پر ایک ارب ڈالرز میں وفاقی شیئرز کا بڑا حصہ سعودی عرب کے حوالے کردیں گے تو اقتصادی طور پر اچھا فیصلہ ہے۔ یہ اسٹریٹجک طور پر کسی حد تک درست ہوسکتا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار یہ دونوں ممالک مالیاتی امداد یا کمرشل شراکت داری کے بغیر صرف اقتصادی وعدوں کی بنیاد پر باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ پاکستان کی بہت بڑی فتح ہے۔ یوں توپاکستان کے اقتصادی شعبہ جات میں خلیجی ممالک کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے جن میں کان کنی کے علاوہ دیگر اہم اقدامات بھی شامل ہیں قومی ایئرلائنز کی نجکاری، زراعت، فارمنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے شعبہ جات میں سرمایہ کاری کے امکانات روشن ہوں گے۔ یہ شراکت داری پاکستان کی معیشت کے لیے ایک تبدیلی کے دور کا آغاز ثابت ہوسکتی ہے جس میں مائننگ سیکٹر ممکنہ طور پر سب سے آگے ہے۔سعودی عرب کی دلچسپی سے پاکستان کی کان کنی کا مستقبل روشن ہوگا یہ ہماری سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اسٹریٹجک ہینڈلنگ پر زیادہ منحصر ہے جو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ذریعے پاکستان کے معاشی معاملات کو براہ راست سنبھال رہی ہے۔
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے مثبت نتائج پوری قوم کو دیکھنے کو ملیں گے۔کونسل کے قیام کا بنیادی مقصد خلیج تعاون کونسل جی سی سی رکن ممالک بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فرو غ دیتے ہوئے ملک کے اندر بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنااور معیشت کو بہتر بنانا تھا تاکہ وطن عزیز پاکستان میں معاشی خوشحالی لائی جاسکے۔براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو پاکستان میں فروغ دینا وطن عزیز کی اقتصادی بحالی کی طرف ایک اہم قدم تھا۔ اسے پاکستان کی معاشی ترقی و خوشحالی کا ضامن منصوبہ کہا جا سکتا ہے ۔خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی کاوشوں سے بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف متوجہ کرنے کے ملکی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کونسل کے قیام کے بعد سے سرمایہ کاری کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئی ہیں ۔ مقامی بالخصوص عالمی سرمایہ کاروں کے پاکستان پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ برادر ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مختلف شعبوں کے اندر سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہےہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے وژن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان میں 25،25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عزم ظاہر کیا ہے ۔ مجموعی طور پراس سرمایہ کاری کا حجم 50 ارب ڈالر بنتا ہے ۔خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے اراکین اور اسٹیک ہولڈرز نے سرمایہ کاری کے لیے موزوں مختلف شعبوں کی نشان دہی بھی کر دی ہے جن پر ہنگامی بنیادوں پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔سعودی حکومت آئندہ دو سے پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں کان کنی، زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں 25 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرنے کی خواہاں ہے جو بلاشبہ پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھانے کی کوششوں کی طرف ایک اہم پیش رفت ہو گی ۔ یہ اب تک کی پاکستان میں عرب ممالک کی جانب سے کی جانے والی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہو گی۔خیال رہے کہ اس سے قبل چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر بھی سعودی عرب کی جانب سے کی جانے والی اس سرمایہ کاری کی تصدیق کر چکے ہیں۔ ان کے دورہ سعودی عرب کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے آرمی چیف کوپاکستان میں 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی تھی ۔ جنرل عاصم منیر نے تاجروں کے ساتھ ایک ملاقات میں اس عزم کا اعادہ بھی کیا تھا کہ وہ ملکی معیشت کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور اس کی خاطر اپنے اگلے دورے میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور کویت سے مجموعی طور پر 75 سے 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دیں گے ۔
یاد رہے کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے قیام کے وقت ابتدائی طور پر غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے جو ہدف مقرر کیا گیا تھا وہ صرف 5 ارب ڈالر تھا لیکن اسلامی ممالک کے تعاون اور پاکستان کی سول و عسکری قیادت کی پر خلوص کاوشوں سے یہ ہدف بڑھ کر 100 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ امید ہے کہ ہماری اعلی قیادت اپنا یہ حدف بہت جلد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ غیر ملکی سرمایہ کار ماضی میں پاکستا ن میں سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دیتے رہے ہیں کیونکہ یہ ایک ایسی مارکیٹ ہے جہاں وہ سرمایہ کاری کے ذریعے کثیر زر مبادلہ کما سکتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان ان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون بڑھا کر اپنی معیشت سنوار سکتی ہے جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، کان کنی اورزراعت جیسے شعبوں میں مزید بہتری آنے کے امکانات ہیں۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ ایس آئی ایف سی کے قیام سے قبل غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے اندر سرمایہ کاری کرنے سے قبل ایک کچھ اداروں سے این او سیز اور اجازت نامے حاصل کرنے پڑتے تھے ،پھر ان کو صوبائی سطح پر تو کبھی وفاقی سطح پر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس کے سبب ملک میں بڑی سرمایہ کاری ممکن نہیں ہو پارہی تھی۔ ایس آئی ایف سی کے قیام سے یہ مسئلہ حل ہوا ہے کیونکہ اس کونسل میں وفاقی اور صوبائی وزارتیں ، چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریز سمیت اہم وزراء اور وزیر اعظم بھی شامل ہیں جبکہ سول حکومتی عہدیداروں کے ساتھ ساتھ اس میں عسکری قیادت بھی شامل ہے۔ سول و عسکری قیادت کے ایک پیچ پر ہونے سے عالمی برادری کے پاکستان پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان میں ایسا ادارہ موجود نہیں تھا۔کونسل نے سرمایہ کاری کے طریقہ کارکو انتہائی سہل بنادیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر کئی ممالک اب آسانی کے ساتھ پاکستان میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت جن شعبوں میں بہتری آئے گی ان میں زراعت ،لائیو سٹاک، کان کنی،معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے کلیدی شعبے سر فہرست ہیں۔ ان شعبوںمیں بہتری لانے کے لیے سول و عسکری قیادت کے غیر ملکی دوروں پر خاصی توجہ دی جا رہی ہے کیونکہ یہ دورے دیگر ممالک کیساتھ باہمی ہم آہنگی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ان کی بدولت باہمی محبت اور بھائی چارے کی فضا پروان چڑھتی ہے۔حال ہی میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ایپکس کمیٹی نے عالمی سطح پر رسائی حاصل کرنے کی حکمت عملی اور دوست ممالک کے ساتھ جاری تعاون کو سراہا ہے ۔ دو طرفہ دوروں میں سعودی عرب اور اسلامک آرگنائزیشن فار فوڈ سکیورٹی کے اعلی سطحی وفود کے نتیجہ خیز دورے شامل ہیں۔ امید ہے کہ آنے والے دنوںمیں ان مربوط اقدامات اور کوششوں کی بدولت ملکی معیشت میں مزید بہتری آئے گی ۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مختلف شعبوں کے اندر سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے ۔ وزیراعظم نے اپنے حالیہ دورہ متحدہ عرب امارات کے بعد ایک بیان میں کہا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے وژن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا عزم ظاہر کیا ہے ۔ مجموعی طور پراس سرمایہ کاری کا حجم 50 ارب ڈالر بنتا ہے ۔امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ان مربوط اقدامات اور کوششوں کی بدولت ملکی معیشت میں مزید بہتری آئے گی ۔