تحریر: علی شیر محسود
پاکستان عجیب و غریب روایات اور سرکاری قوانین پر مشتمل ایسا ملک ہے۔ جس کے اچھے اور برے حالات اور دنوں کا کسی مقامی باشندےکو پتہ نھیں چلتا ۔ جبکہ بیرونی دنیا کو اس ملک کے بارے میں اتنی معلومات ہوتی ہیں۔ جن کا شاید سرکار میں بیٹھے ھوئے پہنچے بزرجمہوروں کو بھی علم نہیں ہوتا۔ چہ جائیکہ عام آدمی کو کسی چیز کی بھنک بھی پڑے۔ کوئی بھی قومی مفاد میں شروع کئے جانے والے منصوبے کی ایسی تشہیر کی جاتی ہے جیسے تمام معاشی مسائل کے حل کا ذریعہ یھی منصوبہ ہے۔ لیکن اس منصوبے کے مثبت ثمرات سے قوم مسلسل محروم رہتی ہے۔ عجیب صورتحال اس وقت پیدا ھوتی ہے جب بیرونی ذرائع ابلاغ سے قوم اس منصوبے کے مستقل ناکامی سے آگاہ ہوتی ہے۔ جس کےناکامی کے بارے میں قومی ذرایع ابلاغ کو مکمل سانپ سونگھ جاتا ہے۔
جیسا کہ کھا گیا کہ عجیب و غریب، تو اس سلسلے میں عجیب اس لئے کہ ماضی میں پاکستان نے ایک سیارہ البدر کے نام سے فضا میں روانہ کیا تھا۔ جس کا مقصد پاکستان کو فضائی معلومات کا حصول تھا۔ اور انھی آفاقی معلومات کی بنا پر مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دینا تھا۔ جبکہ اس سے پہلےایک مشن انٹارکٹیکا میں بھی بھیجا گیا تھا۔ جس کا مقصد مستقبل قریب میں موسمی معلومات اور انٹارکٹیکا میں پاکستان کی موجودگی کو بھی ظاہر کرنا تھا۔ جیسا کہ دیگر ممالک کرتے رھے ھیں۔ خیر سے انٹارکٹیکا میں تو پاکستانی مشن پہنچ گیا تھا۔ جھاں جھنڈے گھاڑ دیے گئے۔ جس کا چرچا پوری قوم اس وقت کے واحد سرکاری ٹیلیویژن پر سنتی رھی۔ لیکن آج تک پاکستانی قوم کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس مشن کے مثبت ثمرات کا نتیجہ کیا نکلا۔ جبکہ پاکستانی قوم کا اس مشن پر ملین ڈالرز کا خرچہ کیا گیا۔
اسی طرح کا ایک اور منصوبہ بلوچستان میں سینڈک کے نام سے شروع کیا گیا تھا۔ جس کا مقصد معدنیات کی دنیا میں ایک نیا انقلاب لانا تھا۔ بلوچستان کے عوام کی پسماندگی کا خاتمہ کرنا تھا۔ عوام کو انکی دہلیز پر روزگار کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کو مالی طور پر بہتر مواقع فراہم کرنے تھے۔اور پاکستانی معیشت کو قدرتی وسائل کے انقلاب سے مستحکم کرنا تھا۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا۔ نہ بلوجستان کے عوام کی پسماندگی میں کوئی بہتری آئی اور نہ پاکستانی معیشت کو سنھبالا دیا جا سکا۔ جبکہ پاکستان اور بلوچستان دونوں کے معاشی حالات آج نزاع کے عالم میں ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان و بلوچستان کے معاشی حالات کی بھتری کیلئے ایک بار پھر سے ریکوڈک پروجیکٹ کو شروع کرنے کی نوید قوم کو سنائی جا رہی ہے۔ جس کو پاکستان کے کوتاہ بین کرتا دھرتا نے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا کر بند کیا تھا۔
آئی ایم ایف سے کھڑی شرائط کے عوض تقریبا ایک اعشاریہ ایک بلین ڈالرز مل گئے۔لیکن اس کے بدلے پاکستانی عوام کی چیخیں ثریا تک پہنچ رہی ہیں۔ اب ان کے جواب کا انتظار ہے البدر سیارہ خلا میں آج تک نہ پہنچ سکا۔ اور نہ آج تک اس کا کوئ سراغ لگایا گیا کہ اربوں روپے خرچ کرنے کے با وجود پاکستان کا قومی و ملکی مفاد میں شروع کیا گیا منصوبہ کامیاب کیوں نہ ھو سکا۔ جو ایک المئے سے کم نہیں۔ بلکہ قومی و ملکی مفاد میں شروع کئے گئے منصوبوں کی ناکامی پر کسی کو بھی ذمہ دار نھیں ٹہرایا گیا۔ خانہ پوری کے ضمن میں سرکاری فائلز کا پیٹ بھرنے کیلئے وقتی طور پر سابقہ روایات کو بر قرار رکھتے ہوئے نشستند و بر خاستند کا کام کر دیا گیا۔ جس کو عجیب کھنا بیجا نہ ھوگا۔ اب بتایا گیا ہے کہ چین کے اشتراک سے پاکستان اب خیر سے چاند پر قدم رنجا فرما ھونے والا ھے۔ قوم دعا گو ھے کہ یہ منصوبہ خیر سے کامیابی کے جھنڈے گھاڑ سکے۔ بہر حال خدشات اور تحفظات کا امکان اپنی جگہ پر موجود د ہے۔ کیونکہ قوم کو سابقہ ادوار میں ملکی سطح پر بھت سے عجائبات دیکھنے کو ملے ہیں۔
اسی تناظر میں جب غربت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ تو یقین کریں کہ عوام غریب ہونے کے باوجود امارت کے مثالی جذبہ سے سر شار ہیں۔ جس سپیڈ سے حکومت ٹیکسز اور عوام سے بلا واسطہ تعلق رکھنے والے اشیائے ضرورت کے ریٹ بڑھا رہی ہے۔ عوام خاموشی سے ان سب اقدامات کو برداشت کر رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ھر گز نہیں کہ وہ حکومتی اقدامات سے خوش ہیں بلکہ وہ چند ماہ تک مزید اپنے صبر کا جائزہ لے رہے ہیں۔ کہ وہ غریب ملک کے شاہانہ چونچلوں کے کب تک اور کھاں تک ساتھ دینے کے قابل رہینگے۔