هفته,  21 دسمبر 2024ء
!!تعلیم اور انصاف کی لوٹ سیل۔۔

تحریر: شہریاریاں۔۔۔ شہریار خان

یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، یہ دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے جو دین کے نام پر بنایا گیا۔ جس کے لیے نعرہ بلند کیا گیا: پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ۔۔ یعنی کلمہ طیبہ کی بنیاد پر وطن عزیز کی تعمیر ہوئی مگر کمال یہ ہے کہ اس ملک میں اسلامی نظام کے علاوہ سب نظام کام کر رہے ہیں۔ یہاں جائز کام کے لیے بھی سفارش درکار ہوتی ہے، سفارش نہیں تو رشوت لایئے۔
یہاں آپ تعلیمی نظام سے لے کر عدالتی نظام تک ہر نظام میں خامیاں ہی خامیاں دیکھ سکتے ہیں مگر کچھ کر نہیں سکتے۔ اگر بیورو کریسی غلطی سے کوئی درست کام کر بھی دے تو اس درست کام کو روکنے کے لیے عدالتی نظام موجود ہے اور خبردار کوئی اس عدالتی نظام کے خلاف بات نہ کرے کیونکہ آپ پر توہین عدالت کا مقدمہ چل سکتا ہے، ایف آئی اے آپ کو سچ بولنے کی پاداش میں گرفتار کر سکتی ہے۔

یہاں بچوں کو تعلیم دلوانا 14سال قید بامشقت سے بھی زیادہ بڑی سزا ہے۔سرکاری سکولوں کی حالت زار ویسی ہی ہے جیسی سرکاری ہسپتالوں کی ہو کر رہ گئی ہے۔ اسی باعث آپ پرائیویٹ سکولوں میں بچے پڑھانے پر مجبور ہیں۔ وہاں جائیں تو ان کی فیس ایسی ہے جیسے ریسٹورنٹ پہ آ گئے ہیں، ذائقے سے زیادہ ماحول کے پیسے۔

فیس تو آپ دے ہی رہے ہیں تو یہ لسٹ پکڑیں یہ کتابوں اور کاپیوں کی لسٹ ہے، یہ صرف ہمارے رجسٹرڈ دکانوں سے ہی دستیاب ہیں۔۔ کوئی اور کاپی نہیں استعمال کی جا سکتی۔۔ وجہ پوچھنے کی اجازت نہیں ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ اس میں بھی کمائی کو دو گنا تین گنا کرنے کا نسخہ ہے۔ اچھا جا کہاں رہے ہیں یہ لسٹ پکڑیں، یہ سٹیشنری کی لسٹ ہے یہ سامان بھی سکول پہنچا دیں اور یقین مانیں یہ سامان سکول میں جاتا ضرور ہے مگر بچوں کو نہیں ملتا پھر بھی سوال نہیں پوچھا جا سکتا۔

اچھا تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ جا سکتے ہیں؟۔ نہیں سرکار۔۔ ابھی کہاں۔۔ یہ سکول یونیفارم کی لسٹ لے لیں، یہ گرما کا یونیفارم ہے، یہ سرما کا اور یہ سپورٹس یونیفارم ہے۔۔ یہ سب بھی آپ یقینناً سمجھ ہی چکے ہوں گے کہ ہمارے رجسٹرڈ ڈیلر سے ہی ملے گا۔۔ دائیں بائیں سے کاپی مت لیجئے گا۔۔ ٹھیک ہے جناب، یہ سب ہو گیا اب میرا بچہ اچھا رزلٹ تو لائے گا ناں؟۔ پڑھائی کے لیے ٹیم تو آپ نے اچھی ہی بنائی ہو گی۔۔ دیکھیں تعلیم کا جہاں تک معاملہ ہے میرے خیال میں آپ کوئی اچھا سا ٹیوٹر رکھ لیں ورنہ ہمارے سکول کے ٹیچرز ہی اکیڈمی چلا رہے ہیں وہاں بھیج دیا کریں بچوں کو۔۔ تھوڑی سی فیس لیتے ہیں جیسے ہم تھوڑی فیس لیتے ہیں۔

سکول میں بچوں کو بھیجنا خود بھی نئے سرے سے سکول میں داخلہ لینے کے برابر ہے کیونکہ آپ کا اصل امتحان تو شروع ہی اب ہوتا ہے۔ سکولوں کی فرمائشیں والدین کے لیے معاشی دہشت گردی سے کم نہیں۔۔ ایسے ایسے بہانوں سے پیسے کھینچتے ہیں کہ شیطان بھی ایسے شیطانی خیالات ذہن میں لانے سے شرمائے۔

آج پنک کلر ڈے ہے، اگلے ہفتے بلیو کلر ڈے ہے، بیک سیل ہے۔۔ آج یہ فیسٹیول ہے تو کل یہ فیسٹیول ہے۔۔ یعنی فیسٹیول کی ایک طویل فہرست ہے اور ظاہر ہے کہ اس دنیا میں کچھ بھی مفت نہیں، ہر فیسٹیول کی ایک الگ فیس ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تمام شعبوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ادارے بنے ہوئے تو ان نجی سکولوں کی دہشت گردی کو روکنے کے لیے کوئی ادارہ نہیں؟۔ بالکل ہے جہاں اس وقت درجنوں ملازمین اور افسران موجود ہیں۔۔

تو پھر یہ ادارہ سکولوں کو فیسوں میں ناجائز اضافے اور دیگر معاملات پر روکتا کیوں نہیں؟۔ اب یہاں آ کر راوی کے پر جلتے ہیں پھر بھی اس نے رازداری کے ساتھ یہ بتایا کہ پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز ریگولیٹری اتھارٹی (پیرا) کے اچھے بھلے دانت تھے مگر وہ موجودہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے ایک دبنگ فیصلے کے ذریعے نکال دئیے تھے۔
کیا کبھی آپ نے سنا ہے کہ کسی نے گھر کی رکھوالی کے لیے کتا رکھا ہو مگر اس کتے کو کسی چور کو کاٹنے سے روکنے کے لیے اس کے تمام دانت نکال دیئے ہوں اور بھونکنے سے روکنے کے لیے اس کے منہ کو بھی باندھ رکھا ہو۔

اس حوالہ سے راوی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی دو مثالیں پیش کیں۔۔ ایک مثال میں پیرا نے اسلام آباد میں ایلیٹ سکولوں کی دو برانچوں کو قواعد کی خلاف ورزی پر سیل کر دیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے فوری طور پر سکولوں کو ڈی سیل کرنے کا حکم دیا، جب اتھارٹی نے وجوہات پر مبنی جواب ہائیکورٹ میں جمع کروایا تو چیف جسٹس صاحب نے اسے توہین قرار دیتے ہوئے تمام اتھارٹی حکام کو عدالت میں طلب کر لیا اور اس کے نتیجہ میں اتھارٹی نے دونوں سکولوں کو فوری طور پر ڈی سیل کرتے ہوئے عدالت میں غیر مشروط معافی جمع کروا دی۔

مزید پڑھیں: !!امی جی سے ادھوری ملاقاتیں۔۔۔

یہ تھی ایک مثال دوسری مثال میں موجودہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے فیسوں کے حوالہ سے پیرا کے تمام قواعد و ضوابط ختم کرنے کا فیصلہ دیا جس کے بعد اس اتھارٹی کا کام صرف اور صرف وہاں آنا،بیٹھنا اور گھر چلے جانا ہے جس کے ملازمین کی تنخواہوں پر لاکھوں روپے ماہانہ خرچ ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ عمارت میں بجلی سمیت دیگر ضروریات پر بھی اتنے ہی اخراجات اٹھتے ہوں گے۔۔ مگر اب وہ کسی سکول کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔

اب میں بتاتا ہوں آپ کو سکول کی بدمعاشیوں کا کہ ایک بڑے سکول نے او لیول کے امتحانات کے لیے برٹش کونسل کی فیس تقریباً دو لاکھ روپے وصول کر لی، اب او لیول کے امتحانات اپریل کے آخری ہفتے میں شروع ہو رہے ہیں اور کلاسز ختم ہوئے بھی کئی روز گزر گئے ہیں۔۔ سکول نے اپریل کی فیس بھی پیشگی وصول کر رکھی ہے مگر اب سکول نے مئی اور جون کی فیس بھی یکمشت طلب کر لی ہے اور نہ دینے پر بچوں کو اسٹیٹمنٹ آف انٹری یعنی رول نمبر سلپ دینے سے انکار کر دیا ہے۔

یعنی اگر بچے کے والدین کسی وجہ سے یہ فیس جمع نہ کروا سکیں تو بچے کا یہ سال بھی ضائع ہو جائے گا اور جو پونے دو لاکھ روپے سے زیادہ رقم جمع کروائی ہے وہ بھی ضائع جائے گی۔ پرائیویٹ سکولوں کی اس بلیک میلنگ کو روکنے کے لیے والدین جس ادارے سے مدد لے سکتے تھے اس کو ایک عدالتی حکم نے بے اختیار اور عضو معطل بنا کر رکھ دیا ہے۔۔ اب اسے انصاف کی لوٹ سیل کہا جائے یا تعلیم فروشی مجھ ایسا کم عقل سمجھنے سے قاصر ہے۔

مزید خبریں